قرض ادا کرنے کے لیے قرض لینا پٹرول سے آگ بجھانے کے مترادف ہے۔ شاید حسن نثار نے یہ بات کی ہے۔ کسی دوسرے سے امید نہیں ہے۔ پاکستان یہ کام ہمیشہ سے کر رہا ہے۔ ہم پہ اتنا قرض چڑھایا حکمرانوں نے جو لالچی سیاستدان ہیں کہ اب مقروض کے ساتھ مجبور اور مظلوم کی بات بھی ہمارے بارے میں کی جا سکتی ہے۔ ہماری لوک دانش میں مقروض کے لیے نجانے کیا کہا گیا۔ گھٹیا باتیں کی گئیں ہیں۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم بُری طرح مقروض ہیں۔ ہمارے ہر حکمران پر کرپشن کا مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ لوگ سارا قرض خود کھا جاتے ہیں۔ جتنا قرض ہم نے لیا ہے اس کا 25 فیصد بھی عوام پہ خرچ کر دیا گیا ہوتا تو پاکستان جنت کا ٹکڑا ہوتا۔ اس کے لیے عمران خان کو ڈاکٹر بابر اعوان کی دوستی اور سنگت حاصل ہے۔
صرف عمران خان ایک حکمران ہے جو قرض لے رہا ے کہ پچھلے کرپٹ حکمرانوں کا لوٹا ہوا قرضہ واپس کر سکے۔ یہ قرض لاعلاج مرض کی طرح پاکستان کے ساتھ چمٹ گیا ہے۔ کیا واقعی کچھ عرصے کے بعد ہماری قوم مقروض نہیں رہے گی؟ برادرم شیخ رشید کہتے ہیں کہ اب ساری منفی عالمی قوتیں پاکستان کے پیچھے پڑ گئی ہیں کہ یہ اپنے پائوں پر نہ کھڑا ہو جائے۔ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا چلے گا بلکہ دوڑے گا اور سب سے آگے نکل جائے گا۔ شیخ صاحب نے دوٹوک انداز میں کہا کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان پریشانیوں سے نکل آئے گا۔ ورنہ کبھی نہیں نکلے گا۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ قائد اعظم کے بعد بھٹو صاحب اور اب عمران خان ہی وہ لیڈر ہیں جو پاکستان کو سربلند کرینگے۔ یہاں مخفی قوتوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ کیا کیا۔ اب عمران خان ملک کی حفاظت کریں اور اس کے لیے اپنی بھی حفاظت کریں۔ کبھی تو رحمت دو عالم رسول کریمؐ کی یہ بات ایک عظیم الشان حقیقت بن کر سامنے آئے گی اور ضرور آئے گی۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برصغیر پاک و ہند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا ، مجھے اِدھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اس ہوا کے چلنے کا وقت آنے والا ہے۔ جس کی تاثیر اور ٹھنڈک دیار حجاز تک جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ شاید تب بھی رسول کریم ؐ کے دل میں پاکستان کی سرزمین ہو، جس غزوۂ ہند کی بات رسول کریم ؐ نے کی ہے اور اس کی کامیابی کی طرف بھی اشارہ ہے۔ وہ مسلمانوں کا لشکر ہو گا اور وہ پاکستانی مسلمان ہونگے۔
٭٭٭٭
واہگہبارڈر کے علاوہ ایک گوئندی بارڈر ہے جو ایک زمانے میں بہت معروف تھا۔ اکبراعظم کے زمانے میں ڈاک یہاں سے آتی جاتی تھی۔ تب یہ بارڈر نہیں تھا مگر ایک بڑی گزرگاہ تھی۔ مگر پاکستان بننے کے بعد ساری توجہ واہگہ بارڈر کی طرف ہو گئی۔ میں واہگہ بارڈر بھی گیا ہوں۔ وہاں بڑی رونق ہوتی ہے۔ مگر گوئندی بارڈر پر جو ویرانی تھی اس میں حیرانی بھی تھی۔ مجھے بہت مزا آیا۔
مرا عزیز دوست ابتسام بڑے اچھے دل والا نوجوان ہے۔ وہ مجھے ساتھ لے گیا۔ مگر رات پڑنے کی وجہ سے ہم پوری طرح فضا کو اور ماحول کو انجوائے نہ کر سکے۔ اس کے باوجود میرا دل وہاں کی یادوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں گائوں کا رہنے والا ہوں ا ور مجھے گائوں اچھے لگتے ہیں۔ گوئندی بارڈر کے قرب و جوار میں کئی گائوں بکھرے ہوئے ہیں۔ شام گہری ہونے کے باوجود سکھوں کے گائوں بھی کچھ کچھ نظر آ رہے تھے۔ یہ گائوں سکھوں کے دل کی طرح کشادہ اور کھلے ڈھلے ہونگے۔ ہم وہاں جا نہیں سکتے مگر ان کا تصور تو کر سکتے ہیں وہاں میرا استقبال چھوٹے چھوٹے دیہاتی بچوں نے کیا۔ موٹر سائیکلوں پر بیٹھے ہوئے وہ خوبصورت بچے میری گاڑی کے آگے آگے جا رہے تھے۔ میں نے ذرا ہی دیر کے لیے اپنے آپ کو نجانے کیا سمجھا۔ مگر ایک سادہ اور منکسرالمزاج آدمی ہوں۔ وہ ’’اجمل نیازی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ میری تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ صرف گوئندی بارڈر دیکھنے کی خوشی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ میرا ارادہ وہاں رات گزارنے کا تھا۔ میں نے بڑی دیر سے گائوں کی شام نہیں دیکھی۔
کسی شہر میں بھی گائوں کا منظر ہو سکتا تھا۔ میں جب ایران کے شہر تہران میں گیا تو حضرت امام رضا علیہ اسلام کے روضے پر حاضری دی۔ باہر نکلا تو شام روضے کے احاطے میں بڑے ادب سے اتر رہی تھی۔ میں سرمست ہو گیا۔ میں نے اتنی خوبصورت شام کبھی کہیں نہیں دیکھی۔
خوبصورت شامیں دیکھنے کا مجھے بڑا شوق ہے۔ وئی چہرے بھی سہانی شام کی طرح ہوتے ہیں۔ میں تو انہیں دیکھتا رہتا ہوں۔ گائوں میں یکلخت بجلی چلی گئی۔ دیہاتوں میں لوڈشیڈنگ بہت لمبی ہوتی ہے۔ مجھے ابتسام نے بتایا کہ دوسرے دن بجلی گیارہ بجے دن کو آئی۔ میں تو خوبصورت اندھیروں میں وقت گزارنے کو قسمت سمجھتا ہوں مگر مصنوعی اندھیرے فطری اندھیروں سے مختلف اور گندے ہوتے ہیں۔ ابشام مجھے دکھی دل کے ساتھ واپس گھر چھوڑ گیا۔ -6 ڈی وحدت کالونی میں میں شام نہیں اترتی شام گرتی ہے۔ دل پر گرے تو بھی کوئی بات ہے۔ مگر وہ نجانے کہاں گرتی ہے۔ آج تک پتہ نہیں چلا۔ ہم رات کا کھانا کھانے کے لیے موبائل فون کی روشنی میں ایک بہت دیسی قسم کے لالٹین کی روشنی میں ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ یہ معاملہ بھی اچھا لگا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آدمی کسی اور کی تھالی میں ہاتھ ڈالے اور سب کچھ اڑا لے۔ یہ کام میں کر سکتا تھا۔ باقی سب میرے ساتھ محبت سے بھی زیادہ عزت کر رہے تھے۔ ویسے محبت عزت کے بغیر محبت نہیں ہوتی۔
میرا خیال ہے کہ آج بھی شہر کے لوگوں سے گائوں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ ان کا مزاج فطری ہے اور عادات قدرتی ہیں۔ ابتسام کا خیال ہے کہ وہ اکتوبر میں ایک اور پروگرام بنائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ گائوں کی گرمیاں بھی دیکھ لینا چاہئیں۔ ہماری گاڑی کو جو شخص ڈرائیو کر رہا تھا اس کا نام شاہد عظیم ہے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے اس عمل میں بھی ایک خوشی سے پھری ہوئی حیرت میں مبتلا تھا۔ اس کی بیٹی تسبیحہ بھی کھانے میں ہمارے ساتھ شریک تھی۔ یہ چھوٹی سی بچی مجھے بھولتی نہیں۔ میں اپنی پوتی کو کبھی کبھی تسبیحہ کہتا ہوں تو وہ حیران نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ میں جو تسبیح ہوتی ہے وہ مجھے دکھاتی ہے۔ یہ ایسے نام ہیں جو مختلف ہیں۔ انوکھے اور پیارے ہیں۔
میں حیران ہوںکہ اس مٹی نے جہاں بڑے لوگوں کے قدم کم کم پڑے ہونگے ۔ کیسے کیسے نام والے لوگ پیدا کئے ہیں۔ ابتسام علی بہت زبردست نام ہے۔ ابتسام کے بھائی طاہر حسین اور جعفر حسین بھی وہاں تھے۔ اس گائوں کے جو لوگ میرے پاس بیٹھے تھے بھائی بھائی لگ رہے تھے۔