ٓاسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری کمشن کی فرانزک رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانزک آڈٹ رپورٹ میں چینی سیکنڈل میں ملوث افراد کیخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنیکی سفارش کی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے، جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمشن نے کیسز نیب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے جب کہ کابینہ نے ریکوری کر کے پیسے عوام کو دینے کی وزیراعظم نے دیگر شوگزملزکابھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے اس سلسلے میں عید الفطر کے فوراً بعد سفارشات طلب کی ہیں جس کے لئے خصوصی معاون شہزاد اکبر کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس بات کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا جو بدھ کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا جس میں شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء کمیشن کی رپورٹ کے بنیادی نکات اور سفارشات سے متعلق بریفنگ دی۔ رپورٹ کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔ رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المْعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔ وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس بریفنگ دی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ عید الفطر کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر کمشن کی رپورٹ کے مطابق سفارشات تیار ہوں گی۔ ابھی کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ڈالا گیا۔ کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرتی ہے۔ انہوں نے انکوائری کمشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے۔ شوگر ملز نے 18-2017 کی پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے کیونکہ اس سے پہلے کسی حکومت میں ہمت نہیں تھی کہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اور اسے پبلک کرے۔ دسمبر 2018 سے لے کر اگست 2019 تک چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا جو 17 روپے بنتا ہے اور 2019 کے بعد بھی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اسی اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) واجد ضیا کی سربراہی میں 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں بحران اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ بننے والے شوگر انڈسٹری کے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ شوگر انکوائری کمشن کی رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا جب بھی سیاست میں آئے گا تو وہ سیاست میں آکر بھی کاروبار کرے گا اور عوام کے خرچ پر کرے گا اور رپورٹ میں سامنے آنے والی باتیں وزیراعظم کے بیان کی 100 فیصد تصدیق کرتی ہیں۔ رپورٹ میں صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کر کے اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جو گنے کی خریداری سے لے کر، چینی کی تیاری، اس کی فروخت اور برآمد تک ہیں، رپورٹ میں ان تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور اسے لوٹا گیا، رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں۔ شوگر کمشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 کے بعد کمشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا۔ رپورٹ میں کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی، تقریباً تمام شوگر ملز گنے کے وزن میں 15سے لے کر 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے، گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔ معاون خصوصی نے مزید کہا کہ بیچ میں کمشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے جو بہت مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے، ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مل مالکان جب چینی کی پیداواری لاگت ظاہر کرتے ہیں تو گنے کی قیمت اس حوالے سے مختص نرخ سے بھی زیادہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ کمشن نے وہ شواہد معلوم کیے ہیں جہاں گنا کم قیمت میں خرید کر اور ساتھ ساتھ کٹوتی کر کے مزید کم ادائیگی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ملز مالکان ان آفیشل بینکنگ بھی کرتے ہیں اور ایڈوانس میں پیسے دیتے ہیں یا تو فرٹیلائزر کی مد میں کچھ دیا جاتا ہے جو باضابطہ طریقہ کار نہیں ہے اور اس سے بھی 35 فیصد تک منافع کما کر کسان کو کم ادائیگی کی جاتی ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ عوام کو کس طرح لْوٹا گیا اور وہ پیداواری لاگت میں ہیرا پھیری ہے۔ انکوائری کمشن کے مطابق ایک کلو چینی کتنے میں بنتی ہے اس کا آج سے پہلے آزاد آڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔ انکوائری کمشن کی پچھلی رپورٹ اور فرانزک رپورٹ میں یہ تعین کردیا گیا ہے کہ حکومت کے ادارے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے تخمینے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ یہ حکومتی اداروں اور ریگولیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ ایک کلو چینی کتنے پیسے میں تیار ہوتی ہے۔ تو اصل قیمت اور شوگر ملز ایسوسی ایشنز کی جانب سے دی گئی قیمتوں میں واضح فرق پایا گیا۔ 19-2018 میں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی فی کلو قیمت 52 روپے 6 پیسے متعین کی جبکہ کمشن کی متعین کردہ قیمت 40 روپے 6 پیسے ہے جو ساڑھے 12 روپے کا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20-2019 میں چینی کی متعین کردہ قیمت 62 روپے فی کلو ہے جسے کمشن نے 46 روپے 4 پیسے متعین کیا ہے اور یہ واضح فرق ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی قیمت کم ظاہر کی جاتی ہے۔ جس قیمت پر گنا خریدا جارہا ہے اگر ایمانداری سے چینی کی وہی قیمت مختص کی جائے تو ایک واضح فرق آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہی کی جزوی ملکیت میں موجود مل کا بھی آڈٹ کیا گیا جسے ظاہر ہوا کہ 2014 سے 2018 تک کسانوں کو رقم کی ادائیگی میں 11- 14 فیصد کٹوتی کی گئی اور 97 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے۔ معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔ دستاویزات کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔ انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے۔ رپورٹ کے مطابق شہباز شریف فیملی‘ جہانگیر ترین کے گروپ اور دیگر جن ملوں کا آڈٹ کیا انہوں نے ہیرپھیر کر کے اربوں روپے کمائے۔ شہباز شریف فیملی کی کمپنی میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی، 2018۔2017 میں انہوں نے ایک اعشاریہ 3 ارب روپے اضافی کمائے جب کہ19۔2018 میں انہوں نے 78 کروڑ روپے اضافی کمائے، جب کہ جہانگیر ترین گروپ کی شوگر ملز ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث نکلی ہیں اور کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر مل ہے ان کی اپنی نہیں، خسرو بختیار کے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں، خسرو بختیار کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہہ سکتے، جو براہ راست ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ فرانزک آڈٹ میں شارٹ لسٹ کی گئِی ملز میں پہلی مل الائنس ہے جو 'آر وائی کے'گروپ کی ملکیت ہے، آر وائی کے گروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں۔ شہزاداکبر نے کہا کہ وزیراعظم کا فیصلہ ہے کہ کمشن کی رپورٹ من وعن عوام کے سامنے رکھی جائے، وزیر اعظم نے کہا ہے کہ 9 کے بعد اب باقی شوگز ملز کا بھی فرانزک ہوناچاہیے، وزیراعظم نے عید کے فوراً بعد سفارشات طلب کی ہیں اس کیلئے میری ذمہ داری لگائی گئی،آٹے کی مد میں تینوں رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹس پر موجود ہیں، آٹا اور چینی کی مدد میں چوری پر کیسز بھی بن رہے ہیں۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 9.3 ارب روپے کی سبسڈی دی، کمشن نے لکھ دیا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کیلئے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے کوئی سبسڈی نہیں دی، 2018میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں سبسڈی دی گئی۔ گزشتہ پانچ سال میں شوگر ملز کو 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ دواؤں والے معاملے میں انکوائری مجھے سونپی گئی تھی، انکوائری کررہا ہوں کہ کیا جن دواؤں کی اجازت دی گئی وہی درآمد کی گئیں۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ چینی بحران کی تہہ تک جانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اس کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا تھا، جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب انسان ہوا۔ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کے خصوصی اجلاس ہوا، حکومت کا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 29 ارب کے گھپلے ہوئے ہیں ،ساری کمپنیوں کا آڈٹ اورپیسہ ریکورہوگا، کرمنل پروسیڈنگ ہوں گی اور ایف آئی اے تحقیقات جاری رکھے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر ہیں کوئی اندھا دھند غریب کو نہیں لوٹ سکتا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں شہباز گل نے کہا کہ وہ وقت گیاجب کابینہ اور وزیراعظم مل کر غریب دشمن اقدامات کرتے تھے۔ سخت دبائو کے باوجود کپتان آج غریب کیلئے ڈٹ کر کھڑا ہے، چینی کی فرانزک رپورٹ شہزاد اکبر آپ کے سامنے رکھیں گے۔ آپ کو پتا چلے گا کہ کیسے ایک پوری مافیا نے غریب کو لوٹا۔ پچھلے 20سال میں سب سے زیادہ نقصان کسان کا اور عوام کا ہوا۔