حیدر قریشی جرمنی
حج کے ارکان میں خدا اور رسول? دونوں کا ذکر رہتا ہے۔
محشر میں کھڑے ہوں گے
پَیر گناہوں کی
دلدل میں گڑے ہوں گے
روزِ محشرمیں حاضری تو بارگاہِ خداوندی میں ہو گی لیکن شفاعت کے لیے ساقی? کوثر? کی طرف بھی دیکھ رہے ہوں گے۔
جی بھر کے رونا ہے
دل کی سیاہی کو
”زم زم“ سے دھونا ہے
یہاں خدا اور رسول? دونوں سے ان کے مقامات کے حساب سے التجائیہ کیفیت ہے۔لیکن ایک ہی بیان میں دونوں کیفیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔حمد اور نعت کی سرحد دراصل اس مقام کا ادراک بھی ہے ،جہاں رسول? کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ کہلاتاہے،جہاں رسول کے آگے آگے بے ادبی کے ساتھ چلنا اللہ کے آگے چلنا قرار پاتا ہے۔فرحت جہاں جہاں ایسے مقامات سے گزری ہیں کامیاب گزر گئی ہیں۔
حمد و نعت کے یہ مضامین براہِ راست حمدیہ و نعتیہ کلام سے ہیں۔ان کے علاوہ اپنی بعض نظموں میں بھی فرحت نے ایسے مضامین کو بیان کیا ہے۔اس کی ایک عمدہ مثال ان کی نظم ”دعا “ہے۔بظاہر یہ ماں کی محبت میں کہی گئی نظم ہے لیکن اس کا دعائیہ پہلو اسے بارگاہِ الہٰی میں لاکھڑا کرتا ہے۔
سوہنے ربا!
میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنا
میں اس کو اتنا خوش کر دوں
جس سے میرا?جنت میں جانا
غیر یقینی نہ رہ جائے
مجھے یقیں ہے
جنت کی نہروں میں ہر دَم بہنے والا دودھ
یقیناََ ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!
اسی طرح فرحت نواز کی ایک اور نظم ہے”بن باس میں ایک دعا“۔ بظاہریہ نظم ہندوستانی روایت کے مطابق سیتا اور رام چندرجی کے کرداروں کی یاد دلاتی ہے لیکن نظم کے ا?خری حصہ میں دعائیہ انداز اس نظم کو بھی فرحت نواز کی شاعری کے دعائیہ حصہ میں لے ا?تا ہے۔
اور خدا سے ایک دعا ہے
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہوکہ
جسم کے اندر خواہش کا لوبان سلگ کر بجھ جائے
اور پیاس چمک کر مٹ جائے
میرے مالک!
میرے بن باسی کو اتنی دیر نہ ہو کہ دنیا مجھ کو
پھر دوبارہ شک سے دیکھے?پھر ویسا بہتان لگے!
فرحت نواز کی حمدیہ،نعتیہ اور دعائیہ شاعری بہت مختصر سی ہے لیکن مقدار میں کم ہونے کے باوجودیہ شاعری ان کے جذبات اور احساسات کا سچا اظہار ہے۔ ۔۔