کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے

ہفتہ بھر کے لاک ڈاؤن سے حکومت نے خاطر خواہ مقاصد تو حاصل کر لیے ہیں لیکن صورتحال کو ابھی تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کیلئے عوام، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک پیج پر آنا پڑے گا۔ تبھی دوسرے مسائل پر توجہ دی جا سکے گی۔ انڈیا کی کورونا کی صورتحال نے تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سائنس کی دنیا میں نام کمانے والا ملک انڈیا اپنے عوام کو کورونا کے متعلق سہولتیں فراہم کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں یکسر ناکام ہو گیاہے۔ ہسپتالوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں۔ شمشان گھاٹ پر میتوں کے جلانے کی جگہ نہیں۔ جلانے کے عمل سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی نے بے شمار نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں۔ اس بھیانک صورتحال میں لوگوں نے لاشوں کو دریا میں بہانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ بعض مقامات پر تو لاشوں کو ڈسپوز کرنے کا عمل انتظامیہ کے اہلکار انجام دے رہے ہیں۔ انڈیا میں موجودہ برسر اقتدار ٹولہ تعصبات کو ابھار کر اقتدار میں آیا اور اس نے اپنے ہی ملک کی اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ کسان، مزدور بھی پریشان بالخصوص مسلمان ان کے تعصب کا نشانہ بنے۔ لیکن اس کے باوجود انڈیا کے مسلمانوں کا کردار قابل ستائش ہے کہ انہوں نے تمام مظالم کی داستانوں کو بھلا کر کورونا متاثرین کی بھر پور مدد کی اور سب کچھ بھلا کر عملی طور پر فرنٹ لائن پر رہے ۔ 
پاکستان میں بھی لوگوں میں کورونا کے حوالے سے پائے جانے والے خیالات اور نظریات نے بے شمار مسائل پیدا کئے لیکن گردو نواح بالخصوص انڈیا کی صورتحال نے ان کے خیالات کو تبدیل کر دیا۔ جو لوگ کورونا اور اس کی ویکسین کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتے تھے میڈیا کے بھر پور کردار کی بدولت عوام نے ماسک کے استعمال اور ویکسین کی طرف توجہ دینا شروع کر دی۔ 65سال کی عمر سے شروع ہونے والا ویکسی نیشن کا عمل اب چالیس سال کی عمر سے بھی نیچے کی طرف بتدریج آ رہا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں کورونا کا تشویشناک حد تک بڑھنے والا گراف اب نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ کورونا نے جہاں حکومت اور پوری دنیا کی معیشت کو تباہ کیا ہے وہاں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی معاشی کمر توڑ دی ہے۔ کورونا کے لاک ڈاؤن میں کچھ بدنظمی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ وہ عید کی خریداری تھی بچوں کا بھر پور پریشر تھا۔ بچے آخر بچے ہیں، والدین ہر تنگی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں۔
 لیکن اپنے بچوں کے فرمائشی پروگرام کے آگے ہاتھ کھڑے کرنے ہی پڑتے ہیں۔ کورونا کا ہم مل جل کر باہمی اتحاد و یک جہتی سے ہی مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس کے پریشر، مضر اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ ہمیں سیاسی ، لسانی، برادری اور کاروباری مجبوریوں سے باہر نکل کر اداروں کے ساتھ کھڑا ہونے پڑے گا۔ اس بھیانک صورتحال کو کنٹرول کرنے کا واحدراستہ بھی یہی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن