مکرمی! عام طور پر عدل اونصاف ایک ہی چیز کو سمجھا جاتا ہے مگر انصاف اس صورت میں ہوتا ہے جب معاملہ دو کے مابین ہوکیونکہ انصاف نصف سے ہے اور دونصفوں کی تقسیم ہمیشہ دو پر ہوتی ہے اور اگر معاملہ دو سے زیادہ کا ہو توپھر انصاف نہیں ہوتا بلکہ مساوات ہوتی ہے اور اس کا مقصد ہوتا ہے کسی چیز کوفریقین میں برابر تقسیم کرنایا سب چیزوں یا افراد کو ایک برابر سمجھنا،عام طور پرانصاف اور مساوات کوعدل کے معانی میں سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ ضروری نہیںہے کہ ہر انصاف اور مساوات عدل پر مبنی ہوکیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انصاف اور مساوات سے کام تو لیا گیا ہومگر وہ ظلم ہی ہو۔اس وقت ملک میںصورتحال یہ ہے کہ منصف اور عدلیہ دو الگ صورتوں میں کھڑے کیے جارہے ہیں فیصلوں کا کریڈٹ منصف یاں عدلیہ کو دیا جائے تاریخ دان بھی اس کشمکش میں گمراہ ہوکر رہ گئے ہیں ۔یہ سب گزشتہ عشروں میں جمہوری اور مارشل لائی ادوار کی عدلیہ میں واضح فرق کے اثرات ہیںاوراس کا فائدہ سیاست دان اور خفیہ ادارے ہر دور میں اُٹھاتے رہے۔اب جب سو موٹو کا موسم چل رہا ہے تو کوئی بھی آئین کے ان اوراق کو نہیں دیکھ رہا جو خزاں کے پتوں کی طرح زرد ہو کر رہ گئے ہیں ۔یہ سب بھی جمہوریت کا کرشمہ ہے۔انصاف تو دو کے بیچ کا پلڑا ہے لیکن عدل تو مساوات اور برابرہ کے لئے نافذ کرنا ضروری ہے۔’’دو‘‘ کے بیش کا انصاف تو چلتا رہے گا مگرانتہائی معزز اور قابل احترام عدلیہ کے لئے عدل کے بے شمار طلبگاردامن پھیلائے کھلی آنکھوں سے اپنے حق کے لئے انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں۔’’کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گر ‘‘ ۔ (عدنان عالم ، لاہور)