ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
پاک سرزمین دنیا کی وہ خطہ بے مثل ہے جہاں قدرت نے سونا اگلنے والے پہاڑ ، سمندر دریا ،چار کی بجائے پانچ موسم، صحرا کے ساتھ پہر وہ نعمت دے رکھی ہے جو بہت کم ممالک کے حصے میں آتی ہیں۔پہلا اسلامی ملک پاکستان ہے جو ایٹمی قوت ہے۔ دوسری طرف ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ واحداسلامی ملک ہے جہاں اسلامی روایات پر عمل نہیں ہوتاہے۔ یہاں ہر کام دونمبر، ہر چییز دو نمبر یہاں تک کہ انصاف کا نظام نھی خالص نہیں۔ دو نمبر سیاست اور سیاسی لیڈر دوعمل، جس کی وجہ سے یہ ملک سوڈان، روانڈا جیسے ملک بنتا جا رہا ہے۔اس ملک کو چلانے والے کچھ ہاتھ بیرونی ہیں ،ادارے سہولت کار بن چکے ہیں۔ خوف خدا اور ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ، اکثر پیسے کے پچاری ہیں۔سیاست کی باگ ڈور دوسروں کے پاس ہے۔اس وقت انڈین اوریہودی لابی ملکی سیاست میں اپنے اپنے ''محبان '' کے ساتھ سرگرم ہے۔اب سیاست انڈسٹری بن چکی ہے۔ ایشو پر بات نہیں کرتے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق نظام چل رہا ہے۔ مرحوم راحت اندوری نے سیاست کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا تھا۔
جدھر سے گزرو دھواں بچھا دو
جہاں بھی پہنچوں دھمال کر دو
تمہیں سیاست نے حق دیا ہے
ہری زمینوں کو لال کر دو
اپیل بھی تم دلیل بھی تم
گواہ بھی تم وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو ذ لیل کردو
جسے بھی چائو حلال کر دو
ان حالات میں ہم سوڈان کی طرف کیوں دیکھیں جاپان کی طرف کیوں نہ دیکھیں جہاں امن ہے جہاں اسلام جیسا نظام ہے۔جاپان میں جو کچھ ہے اسی پر عمل کر لیں حالات ہمارے بھی بدل سکتے ہیں۔مجھے خود جاپان جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا مگر جانے کی خواہش ضرور ہے۔ اپنے پاکستانیوں کی زبانی کچھ واقعات پیش خدمت ہیں۔ایک پاکستانی کہتا ہے
میں جاپانی لوگوں سے متاثر تھا لہزا میں نیجاپانی لڑکی سے شادی کا فیصلہ کیا۔اپنے ساتھ کام کرنے والی جاپانی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تم مجھے پسند ہو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے رضامندی کااظہار کیا کہا کل میں تجھے اپنی فیمیلی سے ملانے کی دعوت دونگی پھر اس نے مجھے شام کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ میں ان سے ملنے ریسٹورنٹ پہنچا۔سب نے گرم جوشی سے مجھے ویلکم کیا ہم سب ایک ٹیبل پر۔اکھٹے بیٹھے تھے۔اس دوران مجھے چھینک آ گئی۔میں نے جیب سے رومال یوز کیا اور واپس اسے جیب میں رکھ لیا میری اس حرکت کو سب نے برا منایا جس کا مجھے اندازہ نہ تھا۔میں نے اپنی منگیتر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم نے رومال کو دوبارہ جیب میں کیوں ڈالا۔ تم نے ٹیشو پیپرز کا استعمال کیوں نہیں کیا۔ سوری کہہ دیا ہے کہ جس کو یہ شعور نہیں کہ اس میں فلو کے جراثیم ہو سکتے ہیں اور تم نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اسے جیب میں رکھ لیا اس پر میں نے رومال سب کے سامنے ڈسٹ پن میں پھینک دیا مگر اب دیر ہو چکی تھی. اب نہ میں جواب وہ دے چکے تھے۔ اب مجھے افسوس رشتہ ٹوٹنے کا نہ تھا اس رومال کا تھا جسے پھینک چکا تھا یہ رومال مجھے میری بہن نے اپنے ہاتھوں سے بنا ک دیا تھا۔رومال تو ہم رکھتے ہی صفائی کیلئے ہیں لیکن اپنی اس عادت کی وجہ سے جاپانی سے شادی کرنے میں ناکام رہا۔ دوسرا واقعہ ایک نوجوان پاکستانی پہلی بار جاپان گیا۔ اس نے 5 سٹار ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں اترا۔ میں نے واش روم میں جانے کے بجائے پول کو ہی ٹائلٹ سمجھ لیا یہاں کسی کیمیکل کی وجہ سے چند لمحوں میں پورے سوئمنگ پول کے پانی کا رنگ بدل گیا۔سکیورٹی پر معمور افراد فوری پہنچ گئے اور مجھے سوئمنگ پول سے باہر نکالا، میری نظروں کے سامنے عملہ آیا اور سوئمنگ پول کے پانی کو تبدیل کر دیا ?مجھے ہوٹل کے ریسیپشن میں لے جایا گیا میرا پاسپورٹ اور سامان مجھے پکڑا دیا اور ہوٹل سے مجھے باہر نکال دیا۔ اب میں شہر کے جس بھی 5 سٹار ہوٹل میں جاتا ریسیپشن پر بیٹھا عملہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہتا تم وہی ہو جس نے سوئمنگ پول کو گندہ کیا تھا۔مجھے کسی فائف سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے نہ دیا گیا ، میں اپنے سفارت خانے گیا انہیں اپنی ساری کہانی سنائی، سفارت خانے سے یہ راہنمائی ملی کہ ایسا ہوٹل تلاش کریں جہاں سوئمنگ پول نہ ہو۔میں جب جاپان چھوڑنے کیلئے ائیرپورٹ امیگریشن پہنچا میرے پاسپورٹ پر مہر لگاتے ہوئے آفیسر نے کہہ دیا امید ہے آپ کو اچھا سبق ملا ہوگا ? مجھے یوں لگا جیسے تین دنوں میں پورا جاپان مجھے جان چکا تھا کہ میں ہی تھا جس نے سوئمنگ پول کو خراب کیا تھا، اس واقع کو عرصہ بیت گیا آج بھی کوئی جاپانی مجھے نظر آتا ہے تو لگتا ہے اسے بھی پتہ ہوگا کہ میں وہی ہوں۔ اب میں سمجھا ہوں کہ ایسا میری تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہوا۔
۔میرے دوست ایڈووکیٹ مرزا عبداللہ بیگ نے کچھ عرصہ جاپان میں گزارا تھا اپ اکثر جاپانیوں کی اچھی باتوں کا ہم سے زکر کرتے رہتے ہیں۔بتایا جاپان دنیا کی عالمی طاقتوں میں سے ایک ملک ہے۔ ایک زمانے میں جاپانی دنیا بھر کی تجارت پر اس طرح چھا گئے تھے کہ کہا جاتا تھا کہ امریکی صدر کے الارم کلاک بھی میڈ ان جاپان کی اشیائ استمعال کرتے۔
کہا جاپانیوں کو ترقی یافتہ ان کی کچھ عادات نے بنایا۔ جاپان میں پہلی جماعت سے چھٹی جماعت تک بچوں کو اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے جس میں انہیں روزمرہ کے معاملات اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کی اخلاقیات کے بارے میں سمجھایا اور بتایا جاتا ہے۔ وہاں پہلی سے تیسری جماعت تک کے بچوں کو فیل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جاپان میں تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ان چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مقصد ان کی تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر ہے، ان کو تلقین کرنا اور روایتی تعلیم دینا نہیں۔جاپانی دنیا کی امیر ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کے گھر میں کام کاج کے لیے نوکروں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ گھر میں رہنے والے تمام افراد گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاپانی بچے روزانہ اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنے اسکول کی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی کرتے ہیں۔ اس مشق کا مقصد انہیں اخلاقی اور عملی طور پر صفائی پسند بنانا ہوتا ہے۔جاپان میں ہر بچہ اپنا دانت صاف کرنے والا برش بھی اسکول ساتھ لے کر جاتا ہے۔ اسکول میں کھانے پینے کے بعد ان سے دانت صاف کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ بچپن ہی سے اپنی صحت کا خیال رکھنے والا بنیں۔ جاپان کے اسکولوں میں جگہ جگہ واش بیسن لگے ہوتے ہیں تاکہ بچے کھیلنے کے بعد اپنے ا?پ کو فوراً صاف کرسکی۔اسکولوں میں اساتذہ اور منتظمین کھانے کا معیار جانچنے اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے طلبا سے آدھا گھنٹہ پہلے کھانا کھاتے ہیں۔جاپان میں گاڑیوں، ریستوران میں موبائل استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ کسی کھلی دعوت یا بوفے پر جائیں تو وہاں پر بھی یہی دیکھیں گے کہ لوگ اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق کھانا ڈالتے ہیں۔ پلیٹوں میں کھانا بچا چھوڑنا جاپانیوں کی عادت نہیں ہے۔جاپان میں سال بھر گاڑیوں کی اوسط تاخیر 7 سیکنڈ تک ہوتی ہے۔ جاپانی وقت کے قدر دان لوگ ہیں اور منٹوں سیکنڈوں کی بھی قیمت جانتے ہیں۔جاپان میں کسی ٹرین یا بس میں سفر کے دوران کوئی معذور، بوڑھا یا حاملہ خاتون ٹرین میں داخل ہو تو ان کے لیے فوراً جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔یہ ہے چند خوبیاں جھنیں ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ تمام خوبیاں اسلام کا ہی حصہ ہیں مگر ہم ان پر عمل کرنا اچھا نہیں سمجھتے۔توہین رسالت پر مر مٹتے ہیں مگر آپ? کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔غیروں نے ہمارے اسلام سے سیکھا ہے یہی وجہ ہے اسلام وہاں دکھائی دیتا ہے۔ہم نہ قانون سے ڈرتے ہیں اور نہ خدا سے۔اب تو شیطان بھی ہم سے پناہ مانگتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔