مولانا جلال الدین رومی ’’ مثنوی معنوی میں ایک سپیر ے کا واقعہ بیان کرتے ہیں : کسی گائوں میں ایک سپیر ا رہا کرتا تھا۔ اس کے پاس بڑی اعلیٰ نسل کے سانپ تھے۔ اپنی اس انفرادیت کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھا۔ لیکن جو چیز کسی کیلئے وجہء شہرت ہوتی ہے وہی حسد اور عداوت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ سوداگر کے دوسرے سپیر ے اس سے حسد کرنے لگے اور اسی حسد نے ایک سپیر ے کو چور بننے پر مجبور کردیا۔واقعہ کچھ یوں ہوا کہ اس سپیر ے کے ہاتھ ایک نایاب سانپ لگ گیا۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جسے ڈس لیتا وہ فوراًہی دم توڑ دیتا اور اس کے جسم کا سارا خون بہہ جاتا اور کوئی بھی تریاق یا بندش کا م نہ دیتی۔ایک دوسرے سپیر ے کو خبر ہوئی تو وہ اس کی تاک میں رہنے لگا اور ایک رات کے پچھلے پہر اسے چراکر لے گیا۔صبح سپیر ے کو چوری کا علم ہوا تو بڑا رنجیدہ خاطر ہوا۔ اسکے دل کو گہرا صدمہ پہنچا۔اتنا نایاب سانپ جو کئی سال کی محنت وجستجو کے بعد ہاتھ لگا تھا، اسے اتنی آسانی سے گنوادیا۔ سپیر ابہت اداس رہنے لگا۔ کسی دوسرے سانپ کو ہاتھ نہ لگاتا۔ بس اسی سانپ کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ اسے کھوجتا پھرتا اور اللہ کے دربار میں اس کی بازیابی کی دعائیں کرتا رہتا۔اسی کیفیت میں کئی دن گز ر گئے۔ سپیرے نے کوئی کام دھندا نہ کیا اور خود کو اس سانپ کے لیے ہلکان کرلیا۔ اس پر ایک دیوانگی سی طاری ہوگئی اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوٰے کرنے لگا۔اسی طرح ایک باروہ سارا دن جنگل میں پھرتا رہا۔ جب رات کو واپس آیا تو گائوں میں ایک کہرام برپا دیکھا۔ استفسارپر معلوم ہواکہ فلاں سپیر ے کی سانپ ڈسنے سے موت واقع ہوگئی ہے۔
سپیر افوراً وہاں پہنچا۔لوگ سپیر ے کی لاش کے اردگرد جمع تھے، سپیر ے کا کپڑا ہٹا کردیکھا تو اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور بولا اسے یقیینامیر ے والے سانپ نے ڈسا ہے۔جس کی وجہ اس نے فوراً ہی دم توڑ دیا۔ دیکھو اس کے جسم سے سارا خون بہہ نکلا ہے۔ اور کسی طور پر بند نہیں ہورہا۔ یہ خصوصیت میرے گم شدہ سانپ کے زہرہی میں پائی جاتی ہے۔ سپیرا فوراً اپنے گھر بھاگا۔گھر آکر سب سے پہلے وضو کیا۔شکرانے کے دونفل ادا کیے۔اور خداوندِ کریم سے اپنی گریہ زاری اور شکوٰہ ، شکایت کی معافی مانگی۔ سپیرے نے کہا :اے میرے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا سانپ چوری ہوگیا۔ اگر وہ سانپ میر ے پاس ہوتا تو آج اس سپیر ے کی جگہ میری لاش پڑی ہوتی۔میں نادان تھا کہ اپنی موت کے لیے خود دعائیں مانگ رہاتھا۔ بلکہ جنگل بیابان میں اسے تلاش کررہاتھا۔جسے میں نے اپنا نقصان سمجھا میر ے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ناقص انسان عقل کا دعوے دار بن جاتا ہے اور فوراً ہی اپنے حکیم اور خبیر پروردگار سے شکوٰہ شروع کردیتا ہے۔