پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نویں ریویوکے بارے میں سٹاف لیول معاہدے کے امکانات ہر گزرتے دن کے ساتھ معدوم ہو رہے ہیں۔ اب اس پروگرام کو اسی صورت بچایا جا سکتا ہے کہ اس کی معیاد میں توسیع کر دی جائے۔ پروگرام کی معیاد30 جون کو ختم ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کو اب معاہدے کا اعلان کرنا ہوگا یا پاکستانی حکام سے اس پروگرام کی معیاد میں توسیع کی بات چیت کرنا ہوگی اور توسیع کے دوران پروگرام کا دسواں اور گیارھواں ریویو مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس حوالے سے پیشرفت نہیں ہوتی ہے تو پاکستان کے نا مکمل پروگراموں کی تعداد میں ایک مزید کااضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے کہہ رہا ہے کہ وہ نویں ریونیو کو مکمل کرنے کا باضابطہ اعلان کرے، اس کے بعد ہی بات چیت آگے بڑھ سکے گی۔ اگر آئی ایم ایف اپنی تمام تر شرائط منوانے اور پاکستان کی طرف سے پیشگی اقدامات کے باوجود معاہدے پر آمادہ نہیں ہو رہا تو اس سے یہی عندیہ مل رہا ہے کہ وہ پاکستان سے مزید کچھ کرنے کا تقاضا رکھتا ہے یا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت معاہدہ کرنے سے کنی کترا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے تمام تقاضے پورے کرنے کے باوجود اگر آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے تو پاکستان کو بھی اس سے دوٹوک بات کرتے ہوئے مزید مطالبات اور شرائط ماننے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک جس طرح بے لوث اور غیرمشروط پاکستان سے معاونت کر رہے ہیں اس تناظر میں تو پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی ہر بات ماننے پر مجبور نظر آرہے ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھا کر آئی ایم ایف انھیں تنگ کررہا ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے لیے گئے اب تک کے قرض سے نہ معیشت بحال ہو سکی اور نہ ہی عوام کی حالت سدھر پائی بلکہ اس کی ناروا شرائط مان کر عوام کا مزید کچومر نکال دیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کو گڈبائے کہتے ہوئے اس سے مزید قرض لینے کی پالیسی سے رجوع کرلینا چاہیے اور اپنی اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے انھیں مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ آئی ایم ایف کے چنگل سے مکمل خلاصی کی راہ ہموار ہو سکے۔