کہا جا تا ہے کہ کسی بھی ملک کی آزادی کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے: اوّل، ایک قطعہ زمین، اور دوم، ایک مضبوط فوج جو اس قطعہ زمین کی حفاظت کرسکے۔ 1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو مسلمانوں کے حصے کے قطعہ زمین کو پاکستان کا نام دیاگیا، اور ظاہر ہے اس قطعے کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت تھی، لہٰذا پاک فوج نے بھی آزادی کے ساتھ ہی جنم لیا۔پاکستان آرمی اس برٹش انڈین آرمی کی کوکھ سے پیدا ہوئی جو دوسری جنگ عظیم کے لیے انگریزوں نے تیار کی اور دنیاکے مختلف علاقوں میں لڑ کر جنگی تجربہ حاصل کر چکی تھی۔ برٹش انڈین آرمی کی بھر پور جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی برطانیہ اور اسکے اتحادیوں کو فتح نصیب ہوئی اس لیے اس وقت کے حساب سے یہ فوج ایک جدید اور فنِ سپاہ گری میں ماہر فوج گنی جاتی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کی شکست نے انگریزوں کو کلکتہ سے لے کر پشاور تک اور بمبئی سے لے کر ماؤنٹ ایورسٹ تک ایک وسیع وعریض سلطنت کا بلا شرکت غیرے مالک بنا دیا۔ اتنی بڑی سلطنت کو چلانے کے لیے ایک قابل ، منظم اور وسیع سول سروس اور جدید فوج کی ضرورت پیش آئی ، لہٰذا حسب ضرورت ان دونوں سروسز کی بنیاد رکھی گئی۔ شروع شروع میں تمام فوجی افسران انگریز تھے البتہ سپاہی زیادہ تر ہندوستانی تھے۔ ہندوستانیوں کو ٹیکنیکل محکموں کے قابل نہ سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستانیوں کی تعلیمی قابلیت ، وفاداری اور قائدانہ صلاحیتیں بھی شک وشبہ سے بالاترنہ تھیں۔ اس لیے کسی بھی ہندوستانی کے لیے سب سے بڑا عہدہ سارجنٹ تھا اور وہ بھی صرف انڈین یونٹس کے لیے۔ ہندوستانی فوج کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں 10 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی فوج نے جنگ میں حصہ لیا لیکن ان میں ایک بھی ہندوستانی کمیشنڈ آفیسر نہ تھا۔
فوج کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو احساس ہوا کہ ہندوستان کو اقتدار میں شریک نہ کر کے وہ زیادہ عرصہ تک یہاں حکومت نہ کر سکتے تھے، لہٰذا 1920ء میں Indianization کا پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے مطابق انڈین جوانوں اور جاگیرداروں کے بیٹوں کو فوج میں صوبیدار تک عہدوں سے نوازا گیا۔ یہ عہدے باعثِ عزت وافتخار سمجھے جاتے تھے۔ اس عہدے کو وی او سی کا خطاب دیا گیایعنی وائسرائے کمیشنڈ آفسیر لیکن یہ رینک بھی برٹش فوج کی تمام ضروریات پوری نہ کر سکا، لہٰذا کچھ انڈینز کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ کنگ کمیشن دیا جانے لگااور یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ یہ لوگ شروع شروع میں تربیت کے لیے انگلینڈ بھیجے جاتے تھے جس کے لیے کافی وسائل اور وقت درکار تھا، لہٰذا ملٹری اکیڈمی ہندوستان میں بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیااور یوں ہندوستان کی مشہور انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کا 1932ء میں قیام وجود میں آیا جس کا شمار دنیا کی بہترین فوجی تربیت گاہوں میں ہوتا ہے۔
ڈیرہ دون ایک صحت افزا پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے فوجی تربیت کے لیے نہایت موزوں تھا۔ شروع شروع میں صرف راجوں، مہاراجوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں کے بیٹوں کو ہی کنگ کمیشن سے نوازا جاتا تھا تاکہ بڑے بڑے اور طاقتور لوگ انگریز حکومت کے بارِاحسان تلے دبے رہیں۔ ان لوگوں کی معرفت عوام بھی کنٹرول میں رہیں اور 1857ء کی طرح کی بغاوت یا آزادی کا کوئی واقعہ بھی پیش نہ آئے۔ انگریز حکومت کی یہ دور رس پالیسی خاصی کامیاب رہی۔ ان بڑے لوگوں کی اولادوں کو سول سروس اور فوج میں کنگ کمیشن کے لیے تیار کرنے کی غرض سے انگریز حکومت نے کئی ایک اعلیٰ معیاری تعلیمی درسگاہیں بھی قائم کیں جن میں تقسیم کے بعد ایچیسن کالج لاہور، ملٹری کالج سرائے عالمگیر، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور لارنس کالج گھوڑا گلی وغیرہ پاکستان کے حصے میں آئے ۔
ہندوستانی عوام کو مزید قابو کرنے کے لیے انگریزوں نے ’فوجی قومیں‘ یعنی Martial Races کا چکر چلایا۔ ان لوگوں میں مزید ہوا بھرنے کے لیے اور انگریز حکومت کے تحفظ کے لیے بے دھڑک جان کی بازی لگا نے کو بہادری کا نام دے کر مختلف فوجی اعزازات، القابات اور زمینوں سے نوازا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کی تنظیم انھی مارشل ریسز کے نام پر کی گئی مثلاً راجپوت رجمنٹ، سکھ رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ وغیرہ تاکہ یہ لوگ قبیلے کے نام کی غیرت میں بے دھڑک ہو کر جان دیں۔ ہندوستانیوں کو بے وقوف بنانے کا اور اپنے مفادات کے تحفظ میں مروانے کا اس سے بہتر طریقہ نہ تھا۔
دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان اتحادیوں کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو انگریزوں کو ہندوستان میں اپنا اقتدار ڈولتا نظر آیا۔ پے در پے جاپانی فتوحات نے انگریزوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی، لہٰذا فوج کی تعداد بہت زیادہ بڑھائی گئی جو بیس لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی۔ اس بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے آفیسرز مہیا کرنا صرف ڈیرہ دون اکیڈمی کے لیے ممکن نہ رہا، لہٰذا کئی ایک آفیسر ز ٹریننگ سکول کھولے گئے ۔ منتخب شدہ نوجوانوں کو چند ماہ کی خصوصی تربیت دے کر جنگ پر بھیج دیا جاتا تھا۔ پاکستان فوج کے کئی مشہور جرنیلوںکاتعلق انھی سکولوں سے تھا مثلاً جنرل ضیاء الحق اور جنرل فیض علی چشتی وغیرہ کا تعلق آفیسرز ٹریننگ سکول ماؤ سے تھا جبکہ مرحوم جنرل ایوب خان سینڈھر سٹ انگلینڈ کے تربیت یافتہ تھے۔ جنرل محمد موسیٰ اور جنرل یحییٰ خان انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کے فارغ التحصیل تھے۔(جاری)