جی 20اجلاس کے پیچھے چھپی بھارتی سازش

بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت کی جانب سے آج سری نگر میں جی 20اجلاس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔اس موقع پر پورے کشمیر خاص طور پر سری نگر میں ہندوستانی فورسز نے سکیورٹی انتظامات کے نام پر کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں اورہر طرف قبرستان جیسی خاموشی دکھائی دیتی ہے۔جی 20اجلاس سے کئی دن قبل ہی بھارتی فوج نے سری نگر اور دوسرے علاقوں کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ حریت رہنما شبیر احمد شاہ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کراہل خانہ کو ہراساں کیا گیااورگھر میں زبردست توڑ پھوڑ کی گئی۔ حریت کانفرنس سے وابستہ خواتین رہنماؤں یاسمین راجہ اور زمردہ حبیب سمیت ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر کے تھانوں، ٹارچر سیلوں اور جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ دو ہفتوں کے دوران درجن سے زائد کشمیری نوجوانوں کو فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جاچکا ہے۔ ریاستی دہشت گردی کے اس سلسلے میں شدت اس لیے پیدا کی گئی کہ جی 20اجلاس کے موقع پر کشمیر میں ہر طرف امن و سکون کا ماحول دکھائی دے اور بھارت دنیا کو باور کروا سکے کہ کشمیر میں تحریک آزادی مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے لیکن سنگینوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والے کشمیری عوام بھارت کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پوری طرح میدان میں ہیں۔
حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، سیدہ آسیہ اندرابی اور دیگر کشمیری لیڈروں نے آج 22 مئی کو جی 20اجلاس سے کے موقع پر مکمل ہڑتال کی کال دی ہے اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں بھارت کے اس قبیح فعل کے خلاف احتجاجی مظاہروںکا اعلان کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت سرکار کو اس وقت بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب کرفیو جیسی پابندیوں کے باوجود سری نگر، کپواڑہ، بارہمولہ اور دوسرے علاقوں میںجی 20اجلاس کے خلاف چوکوں و چوراہوں میں پوسٹرز چسپاں کر دیے گئے، جنھیں ہندوستانی فوجیوں کے ذریعے ہٹانے کا کام اس وقت بھی جاری ہے۔کشمیریوں کی طرف سے لگائے گئے ان پوسٹرز میںحریت لیڈروں کی تصاویرلگائی گئی ہیں اور کشمیری عوام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی آج کے دن تاریخی ہڑتال کے ذریعے دنیا کو مضبوط پیغام دیں کہ وہ جنت ارضی کشمیر پر غاصبانہ بھارتی قبضہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ خطہ جموں کشمیر میں بھارتی میزبانی میں ہونے والے جی 20اجلاس میں چین نے شریک ہونے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور سعودی عرب نے بھی ابھی تک رجسٹریشن نہیں کروائی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین نے تو پریس بریفنگ کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا کہ چین متنازعہ علاقے میں جی 20اجلاس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں ترکیہ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوگا۔ایسے ہی انڈونیشیا کے بھی اجلاس میں شریک ہونے کی توقع بہت کم ہے۔22 سے 24 مئی تک ہونے والے جی 20کے ٹورازم ورکنگ گروپ اجلاس میں بھارت کو ایک سوسے زائد بین الاقوامی مندوبین کے شریک ہونے کی توقع تھی تاہم بتایا گیا ہے کہ ابھی تک ساٹھ کے قریب مندوبین نے تقریب میں شرکت کے حوالے سے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے۔اگرچہ یہ تعداد بی جے پی کی انتہاپسند مودی حکومت کی توقع سے کم ہے لیکن بھارت سری نگر میں جی 20اجلاس کے انعقاد کو ہی اپنی بہت بڑی کامیابی تصور کر رہا ہے۔
بھارت کی طرف سے پچھلے چند برسوں سے بین الاقوامی دنیا خاص طور پر عرب ملکوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے انھیں جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے راضی کیا جارہا تھالیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر جب وہ ایک سال کے لیے جی 20کا سربراہ منتخب ہوا ہے تو اس عرصے میں وہ اس حوالے سے مذکورہ بین الاقوامی فورم سے ہر ممکن فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی طرح مسلمان ملکوں سے بھی سرمایہ کاروں کو یہاں کھینچ کر لائے تاکہ ایک طرف تو وہ دنیا کو یہ باور کروا سکے کہ 5 اگست 2019ء کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے والابھارتی اقدام درست تھا اور کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے تو دوسری جانب متنازعہ خطہ کشمیر میںسیاحت اور سرمایہ کاری کے لیے ان ملکوں کو راضی کر سکے۔مودی سرکار کی سوچ یہ ہے کہ جب مسلمان ملک کشمیر میں سرمایہ کاری کریں گے تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت بھی کم ہو گی اور وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف جاری تحریک آزادی کو دہشت گردی خیال کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکام نے یہاں جی 20کے ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کیا ہے۔ 
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی سری نگر میں جی 20اجلاس کی مخالفت کی گئی ہے۔ نوجوان وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری جنھوں نے گزشتہ دنوں بھارتی شہر گوا میں ہونے والے ایس سی او اجلاس اور اپنے دورۂ بھارت کے دوران ہندوستانی وزیرخارجہ جے شنکر کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے انھیں ناصرف یواین کی قراردادیں یاد کروائیں بلکہ بھارت کے دہشت گردانہ کردار پر بھی کھل کر بات کی، انھوںنے بھی کشمیر میں جی 20اجلاس پر بھارت کو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان کو جس طرح بھارت کے اس اقدام کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بھرپور سفارتی مہم چلائی جانی چاہیے تھی اس میں بہت حد تک کمزوری نظر آئی۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بھی پاکستانی وزارت خارجہ کواس سلسلہ میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور جی 20اجلاس کی آڑ میں متنازعہ خطہ کشمیر کے خلاف جس سازش کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے اسے عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ کشمیری و پاکستانی قوم میں اس حوالے سے سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے جنھیں اللہ تعالیٰ نے حالیہ دنوں میں بھارتی ایجنٹوں کی جانب سے خود کش حملہ میں محفوظ رکھا، کشمیر میں جی ٹونٹی اجلاس کو کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا۔ پاکستان میں موجود حریت رہنماؤں، یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک،پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے صدر خالد مسعود سندھو اور دیگر رہنماؤںنے بھی سری نگر میں جی ٹونٹی اجلاس کے خلاف مضبوط آواز بلند کی ہے تاہم ملکی سطح پر اگر کوئی کمزوری نظر آرہی ہے تووہ اس وجہ سے ہے ملک میں اس وقت سیاسی استحکام نہیں ہے۔ بھارت فوج اور عوام میں فاصلے پیدا ہوتے دیکھ کر بہت خوشیاں منا رہا ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان باہمی لڑائیاں چھوڑ کر تحریک آزادی کشمیرمیں دی جانے والی لازوال قربانیوں کو سامنے رکھیں اوربھارتی سازشوں کے نتیجے میں جدوجہد آزادی کو کسی صورت کمزور نہ ہونے دیں۔ پاکستانی حکام کو کسی صورت یہ موقف بھی اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت جموں کشمیر کی 5 اگست 2019ء سے پہلے والی حیثیت بحال کرے تو اس سے تجارت وغیرہ پر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے اور ساری دنیا اس خطہ کے متنازعہ ہونے کی مسلمہ حیثیت تسلیم کر چکی ہے، اس لیے ہمیں یواین کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کے دیرینہ موقف پر ہی کاربند رہنا چاہیے۔یہی قائداعظم کی کشمیر پالیسی ہے اور کشمیری قوم ہم سے اسی قومی موقف پر ڈٹ کر کاربند رہنے کی امید رکھتی ہے۔کشمیری عوام پاکستان کی خاطر اپنا خون بہا رہے ہیں تو ہمیں بھی ان کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی ہر ممکن مددوحمایت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن