ماحولیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ۔ 

May 22, 2024

فرحانہ خان

 فرحانہ خان

کسی نے خوب کہا ہے کہ:
" انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف"

اس وقت پوری دنیا کا مشترکہ مفاد اور انہیں لاحق مشترکہ خوف ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی درحقیقت ہمارے طرز زندگی میں بدلاو¿ ہے۔ یہ انسان کے اپنے طور اطوار ہیں جن کی بنا پر وہ آج ماحولیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور اس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ تبدیلی ماحولیاتی ہو چاہے کسی اور نوعیت کی راتوں رات نہیں ہوتی انسان کی تباہی کے پیچھے عام طور پر برسوں کی غفلت پوشیدہ ہوتی ہے۔ شاعر نے خوب کہا ہے :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
 حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہی معاملہ دراصل ماحولیاتی تبدیلی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بھی دراصل ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہے جو دنیا کی ترقی کے لیے اس وقت بہت بڑا چیلنج ہے دنیا کے کچھ ممالک نے انفرادی طور پر اس مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہوئے اب اس حوالے سے لوگوں میں آگاہی کے لیے کام شروع کر دیا ہے اور اس کے اثرات سے بچاو¿ اور سد باب کے لیے کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات بھی خوش آئند ہیں۔ 
دنیا میں جن ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کا سامنا ہے پاکستان کا شمار بھی ان میں ہوتا ہے۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ہماری معیشت کا انحصار زراعت پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی جہاں زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے وہیں زراعت پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑا ہے۔ غذائی تحفظ اب ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں بارڈر سیکیورٹی سے زیادہ بڑا مسئلہ فوڈ سیکیورٹی بن گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے تحفظ خوراک کے تمام پہلو متاثر ہو رہے ہیں اس سے خوراک کی دستیابی، رسائی، استعمال، قیمت، استحکام اور معیار سب ہی متاثر ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کا اثر غذائی تحفظ اور غذائیت دونوں پر بلاواسطہ یا بالواسطہ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے فی ایکڑ زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی ابادی کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو دنیا کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
ملک میں 2022 میں آنے والا سیلاب ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اس سیلاب کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے جس سے انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔ فصلوں کی بدترین تباہی سے خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 
دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس وقت ملک میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے بچاو¿ کے لیے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں ہمیں اپنے طرز زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے وہیں موثر قانون سازی اور پھر قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر مسائل کا تدارک ہو سکتا ہے۔

مزیدخبریں