نسیم الحق زاہدی
ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور 70فیصد طبقہ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔اس کے باوجود کبھی چینی کا بحران،کبھی گندم کا بحران کے ہم شکار رہتے ہیں۔آخر کیوں؟حالیہ گندم بحران کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ اسے یوں صرف نظر کر دیا جائے۔بلکہ یہ بحران ایک سکینڈل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ایک وقت میں جب اقتصادی بدحالی،معاشی حالت کو سدھارنے اور مالی معاملات چلانے کیلئے آئی ایم ایف سے ڈالروں کے لئے منتیں کی جارہی تھیں تو اسی وقت دوسری جانب یوکرائن سے ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کر لی گئی، جس سے ملک کو 300ارب کا نقصان پہنچا۔کیا امریکی دباو¿ میں یو کرائن سے خراب گندم منگوائی گئی؟ جو 34 لاکھ 49ہزار 436 میٹرک گندم درآمد ہوئی اس کی مالیت 282ارب 97کروڑ50لاکھ بنتی ہے،آخر کس کی ایماءپر ملکی خزانے کو ایک ارب ڈالر کا خسارہ پہنچایا گیا۔اب تک کی سامنے آنے والی رپورٹوں کے مطابق گندم درآمد کی سنچری فوڈ سیکیورٹی وزارت نے تیار کی اور منظوری نگران حکومت نے دی۔ افسوس!اس فیصلے کی بھینٹ غریب کاشتکاروں کو چڑھا دیا گیا،جنہوں نے مہنگی بجلی،ڈیزل،مہنگی کھاد اور مہنگی کیڑے مار ادویات کا استعمال کر کے گندم کی فصل کو پروان چڑھا یا اور آج اپنے خون پسینے کی کمائی کو سڑکوں پر لئے در بد ہیں۔ موجودہ تناظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مافیاز کس طرح ملکی فیصلوں پر اثر انداز ہو تے ہیں اور ہر حکومت ان کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے۔قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف نے گندم بحران میں ملوث ذمہ داران کے کڑے احتساب کی ہدایات جاری کیں اور اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف کے حکم پر انکوائری کمیٹی کا قیام خوش آئندہے مگر آج اتنے روز گزرنے کے بعد بھی گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات مکمل ہونے کے باوجود کوئی پیشرفت ہوئی نہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکا،اور نہ ہی13 لاکھ ٹن درآمدی گندم میں کیڑے نکلنے کا معاملہ انجام تک پہنچ سکا۔ ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ اداروں نے مکمل چپ سادھ لی ہے‘ دوسری جانب کاشت کاروں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔طے کردہ سرکاری نرخوں سے کئی گنا کم قیمت پرگندم کی فروخت جاری ہے۔ پنجاب میں فی بوری کی قیمت 6 ہزار روپے کی کم ترین سطح پر آگئی۔ 4 لاکھ ٹن اضافی گندم خریدنے کا عمل بھی شروع نہ ہوسکا۔ قبل ازیں وزیر اعظم نے گندم کی خریداری کا ہدف 1.4 ملین ٹن سے بڑھا کر 1.8 ملین ٹن کرنے کا حکم دیا تھا اور خریداری مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ واضح رہے کہ موجودہ گندم کی درآمد اور خریداری دونوں کی پالیسی نے گندم کے بحران میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومتی تحقیقاتی رپورٹ کے انکشافات ہو شر با ہیں کہ اکتوبر 2023ءکو یوکرائن سے 34لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا۔پہلے سے ہی 46لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود د تھے۔باہر سے منگوائی گئی گندم 2900روپے فی من سے 3200روپے فی من والی گندم آڑھتیوں نے 4700روپے من خریدی اور سرکاری گندم جس کے گودام بھرے ہوئے تھے وہ محفوظ رہی۔جبکہ اس وقت کی حکومت نے سرکاری گندم فراہم کر کے شرح گرانے کی بھی کوشش نہ کی۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اگست 2023 ءسے مارچ 2024 ءتک 330 ارب روپے کی گندم درآمد ہوئی،نگران حکومت کے دور میں 250 ارب کی لاگت کی 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم پاکستان منگوائی گئی،موجودہ حکومت میں 80 ارب کی لاگت کی 7 لاکھ میٹرک ٹن درآمد گندم پاکستان پہنچی۔رپورٹ کے مطا بق مجموعی طور پر پاکستان سے گندم درآمد گی کیلئے ایک ارب10 کروڑ ڈالرپاکستان سے باہر گئے،نومبر 2023 ءمیں پانچ لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی،ساڑھے3 لاکھ 35 ہزارمیٹرک ٹن گندم دسمبر 2023 میں درآمد کی گئی،جنوری 2024 ءمیں سات لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی،فروری 2024 ءمیں ساڑھے 8 لاکھ میٹرک ٹن گندم آئی۔رپورٹ کے مطابق گندم کے 70جہاز6 ممالک سے درآمد کئے گئے،پہلا جہاز پچھلے سال 20ستمبر کو اور آخری جہاز 31 مارچ رواں سال پاکستان پہنچا۔وزارت خزانہ نے نجی شعبہ کے ذریعے صرف دس لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت بھی دی تھی۔جبکہ گندم کی کٹائی سے قبل ہی 40لاکھ ذخیرہ موجود تھا تو پھران چھ کروڑ کسانوں کا معاشی قتل کیوں کیا گیا؟۔ اب گندم کے کاشتکاروں کے 50فیصد معاشی نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ یہ کہنا بے جا بھی نہیں کہ حکمرانوں کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔مزید برآں حکومت پنجاب نے گندم کا سرکاری ریٹ 3900فی من اور سندھ گورنمنٹ نے 4000روپے فی من کا ریٹ مقرر کیا تھا۔ ملک میں 14000 فلور ملز کام کر رہی ہیں۔اب دانستہ و نادانستہ طور پر ان کو فائدہ پہنچے گا۔ بلکہ حکومتی سبسڈی سے منافع بھی یہی وصول کریں گے زراعت پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا 19 فیصدحصہ ہے اس کے علاوہ زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حجم 80 فیصد تک ہے۔ زرعی شعبہ سے 42.3 فیصد آبادی کا روزگار بھی وابستہ ہے۔ اورسب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب زرعی پیداوارکا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی 48 فیصد آبادی کے روزگار کا ذریعہ بھی زراعت ہے۔پاکستان کی کل ملکی برآمدات میں زراعت کا شعبہ تین چوتھائی ہے اور اس کا 60 فیصد حصہ صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے صوبہ پنجاب ملک میں جاری فوڈ سکیورٹی کے چیلنج سے نبرد آزماہے۔صوبہ پنجاب کا مجموعی قابل کاشت رقبہ 16.68 ملین ہیکٹر ہے جس میں سے5.87 ملین ہیکٹر رقبہ کی بوائی سال میں ایک بار ہوتی ہے۔ گندم پاکستان میں کاشت ہونے والی اہم غذا ئی فصلات میں سے ایک فصل ہے۔ پاکستان میں ربیع کے موسم میں گندم تقریباََ 9 ملین ہیکٹر پر کاشت کی جاتی ہے جو کہ کل کاشت شدہ رقبہ کا تقریباََ 80 فیصدبنتا ہے۔رواں برس 2024ءمیں 23.69ملین ایکڑپر گندم کاشت ہوئی۔پنجاب میں اس کی پیداوارگزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ رہی۔پنجاب گندم کی کاشت و پیدوارکے حساب سے بڑا صوبہ ہے جہاں پر 17.44ملین ایکڑز پر 22.56ملین ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ رواں برس 32,100ہزار میٹرک ٹن ہے۔ 2024ئ گندم کی پیداوار کے 40فیصد 9.12 ملین ہیکٹرز وقف ہوا تھا۔پاکستان رقبہ اور پیداوار کے حوالے سے دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر شمار ہوتاہے۔48-1947 تک ملکی پیداوار میں 2.63 ملین ٹن تھی جو بڑ ھ کر 25 ملین ٹنز سے تجاوز کر گئی جسکی وجہ سے ملک گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیاتھا۔بعدازاں کرپشن ہماری گندم بھی کھا گئی؟