انصاف و مسیحائی کے منتظر یتیم بچے

شہادت / راجہ شاہد رشید
raja.shahid1973@gmail.com

دلوں میں خوفٍ خدا ، رحم دلی اور خدا ترسی ہو تب کسی کا دل پسیجتا ہے اور سوچتا ہے کسی کے لیے ، صد افسوس وہ ماتم کہ ہمارے دل ہی مردہ ہو گئے ہیں ، ضمیر بھی زندہ نہ رہے اور خوفٍ خدا تو جیسے کب کا ختم ہو چکا ہے ۔ اخلاص و اخلاقیات ، دکھ و درد مندی اور انسانی ہمدردی ، وفا و حیا اور احساس و محبت ، ایثار و الفت اور اصول و سچائی ، انس و انسانیت اور امانت و صداقت و دینیات و دیانت جیسے یہ سب برائے نام اور بے معانی سے حروف و الفاظ ہی رہ گئے ہیں ، جب یہ سب چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو تب جرائم جنم لیتے ہیں اور لوگ کرائم کرتے ہیں ۔ برٍصغیر ہندو پاک میں پنجابی ادب و زبان کی نامور ادیبہ امرتا پریتم نے کہا تھا کہ ” مذھب انسٹیٹیوشن بن چکیا اہے میں کہنی آں ہن ایہدا ناں انسانیت یا روحانیت رکھ دیو ۔ مذھب تے قنون بندے نوں جگان دی گل تے کردے مگر جگاندے کوئی نیں کیوں جے جاگدے آدمی تے حکومت ن?یں ہو سکدی۔“ قیامت کی کوئی ایک نہیں کئی ایک نشانیاں علمائے کرام اپنے بیانات اور خطبات میں بتلاتے ہی رہتے ہیں مذہب کے ٹھیکیدار جو ٹھہرے ۔ ایک معروف ترقی پسند فلسفی نے کبھی کہا تھا کہ ” اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذھب ہے جس میں بندے اور رب کے درمیان کسی مولوی و پادری اور کسی پیر و پنڈت و پروہت کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔“ انسانیت مٹ رہی ہے چار سو اندھیرے ہی اندھیرے ہیں ، نہ صرف رونا دھونا ، آہیں ، سسکیاں اور فریادیں ہیں بلکہ غریب کی آنکھ سے لہو ٹپک رہا ہے ، نفسا نفسی کا عالم ہے میں کیا کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کیوں کہ یہاں سماجی ناہمواریوں اور انسانی بے حسی کی بڑی ہی طویل داستانیں پوشیدہ ہیں جو خون سے لکھنے کے لائق ہیں ۔ بلا شبہ جب تک دلوں میں خوفٍ خدا ، رحم دلی اور خدا ترسی نہ ہو تو کب کسی کا دل پسیجتا ہے اور سوچتا ہے کسی کے لیے ۔ برادرم و محترم اعظم احساس جی کے الفاظ میں : 
کچل ڈالا جو اک پجارو نے ایک مزدور کو 
چند لوگوں کو ذرا سی دیر اس کا غم رہا 
ایک برقی تار سے کوا الجھ کر کیا مرا 
خاندانٍ زاغ میں پھر دیر تلک ماتم رہا 

میرا چھوٹا بھائی راجہ رمیض رشید 8 مئی کی شام 7 بجے میرے گھر آیا ، وہ کچھ دیر تو اپنی غربت اور مسائل و مشکلات کا رونا روتا رہا لیکن جب میں نے اسے تسلی اور ایک آس و امید دی تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور چہرے پر اطمینان آ گیا ، وہ بار بار واپس اپنے گھر جانے کی باتیں بولنے لگا مگر میں اسے یہی کہتا رہا کہ آئےہو ابھی ، بیٹھو تو سہی ، جانے کی باتیں جانے دو لیکن وہ نہ رکا کھانا کھانے کے بعد تقریبا 10 بجے وہ میرے گھر سے اپنے گھر کے لیے نکلا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، راستے میں جاتے ہوئے مورگاہ موڑ کے پاس ایک تیز رفتار وائٹ کلر کار نے اس کی موٹر سائیکل کو زوردار ٹکر ماری ، وہ پہلے تو اوپر خلا میں گیا پھر اس کا سر دھمک سے سڑک پر لگا ، اس کے بعد میرے بھائی نے بولنے کی کوشش تو کی مگر بول نہ سکا ۔ کسی 15 ، ڈولفن یا 1122 نے نہ تو مارنے والوں کو پکڑا اور نہ ہی ان کی گاڑی کو پابند بلکہ بند کیا ، سوچنا تو یہ ہے کہ وہ لوگ صرف اپنے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی ہی ڈولفن اہل کار کو دے کر بھاگنے میں کامیاب کیسے ہو گئے ساتھ کچھ اور بھی دیا ہوگا ، انہیں کس نے اور کیوں جانے دیا۔۔؟ میرے بھائی کو ہسپتال بھی کافی لیٹ پہنچایا گیا اور ہمارے پہنچنے کے بعد ہی اس ”بے نظیر ہسپتال“ والوں نے مرنے والے پر توجہ دی کیوں کہ اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا ۔ جب گھڑیوں نے 12 بجنے کا اعلان کیا اور تاریخ بھی 8 مئی سے 9 مئی پہ پہنچ گئی تو پھر اس کے بعد ہم اجڑ گئے جیسے یہ اپنا راولپنڈی ہی کربلا بن گیا تھا ہمارے لیے ، میرے رمیض کے جسم میں حرارت و حرکت بالکل بھی نہیں رہی تھی اور رمیض کے تین چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں ، اس کی جوان بیوی ، ہماری بوڑھی ماں ، الغرض ہماری بہنوں بیٹیوں کی کوک فریادیں زمین و آسمان تو سن رہے تھے لیکن یہ سنگدل انسان نہیں سن رہے تھے ۔ رومیٍ پوٹھوہار اور سلطان العارفین میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ میں : 
سنڑیاں گلاں دی قدر نہ ہندی 
جے تن تے ورتن ناہیں 
تیلاں باہجھ نہ بلدے دیوے 
تے درداں باہجھ نہ آہیں 
میں بحیثیت ادیب و مفکر و کالم نگار ایک مدت سے معاشرتی مسائل و مشکلات ، ایک عام انسان کے دکھ و تکالیف و حالات اور غریب کی غربت و بے کسی کا نوحہ ہی لکھتا رہا لیکن آج اپنے غم دکھڑے بتلا رہا ہوں اور پوچھ رہا ہوں کہ 10 سالہ زارا رمیض ، 7 سالہ تحریم اور 4 سالہ محمد آیان کیا کریں اور کدھر جائیں ، کس کو بابا بابا بولیں ، کوئی ہے جو میرے رمیض کے تین یتیم بچوں کے سروں پر دستٍ شفقت رکھے۔۔۔؟ اس ضمن میں میرا ہی شعر ہے کہ : 
رنگ روٹھ ہی گئے تیرے جانے کے بعد 
ہم تو ٹوٹ ہی گئے تیرے جانے کے بعد
 وزیرٍاعلٰی پنجاب محترمہ مریم نواز پہلے خود کو اور اپنی پولیس کو تو ٹھیک کریں ، ایسے ہی پولیس کی وردی پہننے اور لوگوں کو دکھانے کا کیا مطلب ہے کہ میرے ”کرتوت“ بھی اپنی پولس کی مانند ہیں ۔ کب ختم ہوگا یہ ظلم و جبر و بربریت کا بازار اور کب ملے گا انصاف آخر کب۔۔؟ آئی جی پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب اس سانحہ کا فوری نوٹس لیں اور چیف جسٹس آف پاکستان بھی خصوصی شفقت و توجہ فرمائیں ۔ آخر میں میرے اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں میری یہ التجا ہے کہ : 
بے کسوں کے سنگ ہو جا دو چند سے دور کنارہ کر 
بن تو آس بے آسروں کی بے چاروں کا چارہ کر

ای پیپر دی نیشن