اہل دانش فرماتے ہیں کہ عظیم ہے وہ شخص جو ذاتی زندگی میں بھی رشتوں کی پرواہ کئے بغیر سچ بولے۔ یہ غالباً 2008ءکی بات ہے۔ میرا ایک دوست جو اسلام آباد میں رہتا تھا اور جسکا شو بز سے بڑا گہرا تعلق تھا ایک دن لاہور میرے گھر پر موجود تھا کہ اچانک اس نے ایک فرمائش کر دی۔ اس نے کہا کہ وہ ان دنوں ایک ڈرامہ سیریل بنا رہا ہے اور اسکو اسکے بعض حصوں کی شوٹنگ کیلیئے میرا گھر چاہیئے۔ ابھی اس خاکسار نے اثبات یا انکار میں کچھ کہا نہیں تھا کہ میرے اس دوست کی شریک حیات بولی کہ بھائی گو یہ میرا خاوند ہے لیکن میں آپکو یہ کہونگی کہ اسکی باتوں میں نہ آنا۔ یہ لوگ جب شوٹنگ کرتے ہیں تو پورا گھر سیٹنگ کے چکر میں الٹ پلٹ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر جو تباہی مچتی ہے اسکے لیے بڑی معصومیت کے ساتھ یہ طرح طرح کے عذر پیش کر دیتے ہیں۔ قارئین یقین جانیئے میں اپنے دوست کی فرمائش کے متعلق ابھی کیا فیصلہ کرتا میرے دوست کی اس بیوی کے اس انتباہ نے اس لمحے مجھے عجیب مخمصے میں ڈال دیا کہ فی زمانہ جہاں ہر طرف اخلاقی اقدار کے قحط الرجال کا دور دورہ ہے، کیا وہاں پر اتنی سچی خاتون بھی ہو سکتی ہے جو اتنے اہم رشتے کی پرواہ کیئے بغیر سچ بول رہی ہے۔ جی دوستو جس خاتون کا ذکر کر رہا ہوں اور جس پر آج کا یہ کالم ہو گا وہ کوئی اور نہیں حالیہ دنوں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیرپرسن منتخب ہونے والی خاتون سابقہ سینیٹر روبینہ خالد ہے جو میرے عظیم دوست رو¿ف خالد مرحوم کی بیوہ ہے۔ رو¿ف خالد جو انتہائی خوش شکل ، خوش لباس، نفیس اور سب سے بڑھکر جن اخلاقی اقدار کا امین تھا اسکی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن سجائے بیٹھا تھا لیکن اسکے ساتھ اسکی ایک اور صفت جو اسے باقی لوگوں سے ممتاز کرتی تھی وہ اسکا انٹیلیکچول کردار تھا۔ تاریخ نے اسے صرف ایک کامیاب رائٹر ہی ثابت نہیں کیا وہ ایک کامیاب ایکٹر ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی تھا۔ رو¿ف خالد سے میرے تعلقات کی ابتداء1989ء میں اس وقت ہوئی جب سرکاری فرائض کی ادائیگی میں ہم دونوں ایک جگہ پوسٹ ہوئے یادوں کے دریچوں میں جھانکتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے ان لمحات کی رم جھم شروع ہو جاتی ہے جب میز کرسی سجائے وہ ڈرامہ “مدار” کا سکرپٹ لکھ رہا تھا ایک ڈرامہ مدار ہی اسکے قلم کی زینت نہیں بنا، مشہور زمانہ “ گیسٹ ہاو¿س” “انگار وادی” اور “لاگ” جیسے شہرہ آفاق ڈراموں نے بھی تو رو¿ف خالد کے قلم کی کوکھ سے جنم لیا۔ کہتے ہیں جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور جیسا مرد اللہ اسے ویسی ہی عورت عطا کرتا ہے، جتنا کمال کا ہمارا یہ دوست تھا اللہ نے 1989ءہمارے اس دوست کو اتنی ہی باوصف اور ادب سے لگاو¿ رکھنے والی ہمخیال ساتھی عطا کی۔ اس سے پہلے کہ ہمارا دوست رو¿ف خالد ہماری اس بھابی کی پہچان بنتا روبینہ خالد کی ایک اور پہچان بھی تھی اور وہ یہ کہ روبینہ پشاور صوبہ کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ایک عظیم ہستی سید ظفر علی شاہ کی بیٹی تھی جو بھٹو مرحوم کے دیرینہ ساتھی اور ہمیشہ حلقہ “این اے ون “ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے۔ مقامی لوگ زیادہ تر انہیں آغا جی کے نام سے پکارتے تھے۔ روبینہ خالد جس نے خیبر لاءکالج سے گرئجوئیشن کی۔ رو¿ف خالد کی رحلت سے پہلے انفرادی طور پر سیاست میں اتنی سرگرم عمل نہیں تھی لیکن چونکہ میرا رو¿ف خالد سے بہت ذاتی تعلق تھا لہٰذا اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ خاکسار بڑے وثوق کے ساتھ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ ان دنوں بھی سماجی سطح پر روبینہ اپنا زیادہ تر وقت پبلک کی فلاح و بہبود کے معاملات پر خرچ کرتی نظر آتی تھیں لیکن پھر کیا ہوا تقدیر کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا یہ غالباً 2010 ءکی ایک بدنصیب گھڑی تھی جب رو¿ف خالد ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ گھر اور کاروبار کی ساری ذمہ داریاں ہماری اس بہن کے کندھوں پر آن پڑیں لیکن ہماری اس بہن نے کمال جرات کا مظاہرہ کیا، اس نے اپنے آپکو اور اپنے بچوں کو حالات کے سپرد نہ کیا بلکہ حالات کو اپنی منشاءکے طابع کیا اور نہ صرف ان ذمہ داریوں سے نبردازما ہونے کا فیصلہ کیا جو رو¿ف کی وفات کے بعد اسکے کندھوں پر آ پڑی تھیں بلکہ اپنے والد سید ظفر علی شاہ کے چھوڑے خلاءکو اپنے بھائی سید ظاہر علی شاہ کے شانہ بشانہ پر کرنے کی بھی ٹھانی اور یوں 2012ءمیں پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان دنوں پارٹی سے دیرینہ رفاقت اور وفاداری کی بنیاد پر، جب بڑے بڑے پارٹی کے سخت وقت میں راہ فرار اختیار کر گئے تھے، اس دلیر خاتون کو اسکی ذاتی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے سینٹ کی عام نشستوں پر ٹکٹ دیا اور قدرت کا کمال دیکھیں جب ہر طرف ضمیروں کے سودے ہو رہے تھے تو اس باکردار عورت کو اللہ نے کیسے کامیابی سے نوازا۔ 2012ءسے 2024ءکا درمیانی عرصہ گو کہ روبینہ خالد کی زندگی کئی مد و جزر سے عبارت ہے اور جس میں حالات کے جبر نے کئی دفعہ اسے ٹوٹنے پر مجبور بھی کیا لیکن یہ اسکی استقامت پسندی تھی کہ وہ اپنی پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہی جسکے ساتھ ساتھ عملی میدان میں جسقدر گھریلو خواتین اور دوسرے ہنرمند لوگوں کیلئے فلاحی منصوبوں پر اس نے کام کیا راقم کی نظر میں ان نقادوں کیلیئے جو اسکی بطور چیرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پر سوال اٹھا سکتے ہیں بڑا واضع پیغام ہے کہ جو لوگ ذاتی زندگیوں میں رشتوں کی پرواہ کیئے بغیر سچ بولتے اور ثابت قدم رہتے ہیں یقینا وہ قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ راقم کی یہ رائے صرف اس لیئے نہیں کہ روبینہ کا اسکے ساتھ بہن اور بھابی کا رشتہ ہے حالانکہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے ہمارے بہن بھائی کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں بلکہ اسکی ایک اور وجہ روبینہ کا ادب سے لگاو¿ اور شعر و شاعری میں اسکا حسن انتخاب اور سب سے بڑھکر اسکے اندر رچی بسی سچائی ہے۔