پاکستان میں سیاسی اور فوجی حکومتیں عوام کو گڈ گورننس دینے میں ناکام رہی ہیں-سیاسی عدم استحکام، معاشی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا، کمزور ریاستی ادارے اور حکومتی شعبے سماج میں اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی کرپشن اور شفاف موثر یکساں احتساب کا فقدان بیڈ گورننس کی بنیادی وجوہات ہیں- پولیس گڈ گورننس کا بنیادی حکومتی شعبہ ہے - امن و امان کا قیام گورننس اور عدل وانصاف کی فراہمی میں معاونت پولیس کی بنیادی ذمے داری ہے- پولیس کا شعبہ ناکارہ اور فرسودہ ہو چکا ہے- گذشتہ دنوں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار سے ملاقات میں سسٹم کی خامیوں کے حوالے سے گفتگو ہوئی جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس آفیسروں کی مشاورت سے پولیس اصلاحات کا پیکیج تیار کیا تھا جس پر آج تک عملدرآمد نہیں کیا گیا- انہوں نے 180 سول اور فوجی قوانین کی نشاندھی بھی کی تھی جن پر نظر ثانی کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے اور عدل وانصاف کے نظام کو معیاری بنایا جا سکتا ہے مگر پارلیمنٹ نے ان قوانین پر مشاورت اور بحث ہی نہیں کی- اگر پولیس ریفارمز پر عملدرآمد ہو جاتا تو کوئی حکومت پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتی تھی-مورخین اور ماہرین نے گڈ گورننس کے بارے میں تحقیقی کتب اور مقالے لکھے ہیں-جن سے کوئی استفادہ نہیں کیا جاتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گورننس کا نظام پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ جڑا ہوا ہے- پارلیمانی جمہوریت میں منتخب ہونے والے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور جب وہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے انتخابات پر جو کچھ خرچ کیا ہے وہ واپس وصول کیا جائے-
ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام کا کمیونٹی سروس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے-امیدوار کا کوئی تعلیمی اخلاقی اور سماجی معیار ہی مقرر نہیں کیا گیا-خاندانی تعلقات کی بنیاد پر اور سرمایہ کے زور پر لوگ منتخب ہو جاتے ہیں-اراکین اسمبلی عوام کی فلاح و بہبود اور مثالی گورننس کے لیے قانون سازی پر ہی کوئی توجہ نہیں دیتے-ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تمام اختیارات ان کے ہاتھوں میں مرکوز رہیں لہذا وہ مقامی حکومتوں کے بلدیاتی نظام کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں تاکہ ان کے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل نہ ہو سکیں-پارلیمانی جمہوری نظام میں منتخب وزیراعظم اراکین اسمبلی کا یرغمالی بن جاتا ہے جو اسے بلیک میل کرتے ہیں اور وہ اگر چاہے بھی تو عوام کے مفاد میں کچھ نہیں کر سکتا اور ہر وقت اسے عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لیے تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں-منتخب وزیراعظم ریاست کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اس کا آئینی فرض ہوتا ہے کہ وہ بیوروکریسی، عدلیہ اور ریاست کے دوسرے اداروں کی رہنمائی کرے اور ان کو گائیڈ لائنز دے اور انہیں فعال اور مستعد رکھے-افسوس وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ان ریاستی اداروں کی طرف ہی دیکھتا رہتا ہے-پاکستان کے ریاستی اداروں عدلیہ، بیوروکریسی اور پاک فوج میں سیاسی مداخلت اور ایک دوسرے کے خلاف تناو¿ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے- یہ ادارے عوام کو گڈ گورننس دینے کے قابل ہی نہیں رہے-
اگر ریاست کے تمام ادارے آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کر رہے ہوں اور احتساب کا صاف شفاف اور یکساں نظام موجود ہو تو ہم گورننس کو بہتر بنا سکتے ہیں-گڈ گورننس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے سیاسی انتخابی نظام کو مستحکم بنائیں- متناسب نمائندگی کے اصول پر عمل کر کے ہم پارلیمان کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ایسے افراد منتخب کر سکتے ہیں جو میرٹ اور اہلیت پر پورا اترتے ہوں- متناسب نمائندگی میں چونکہ ووٹ کسی امیدوار کو ڈالنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کو ڈالے جاتے ہیں لہذا ہم ایسے”انتخابی چوہدریوں“ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جو عوام کے مسائل میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے اور پورے سیاسی و انتظامی نظام کو یرغمال بنا لیتے ہیں- وزیراعظم کو براہ راست منتخب کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اراکین اسمبلی کے بجائے عوام کو جواب دہ ہو اور اس کی توجہ اقتدار کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ عوام کے مسائل حل کرنے پر ہو -عوام کو گڈ گورننس فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ صوبوں کی گورننس آسان اور بہتر بنائی جا سکے- پاکستان کے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا اور دانشوروں کو پاکستان کے بڑے قومی اور عوامی مسائل کی جانب توجہ دینی چاہیے-کب تک ہم شخصیات اور سیاسی گروہی مکر و فن پر بحثیں کرتے رہیں گے اور پاکستان کے اصل حقیقی مسائل کی جانب توجہ نہیں دیں گے- ہمارے ریاستی نظام میں سماجی انصاف اور مساوی مواقع ہی نہیں ہیں-جس کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے-سیاسی انتخابی نظام میں جوہری نوعیت کی تبدیلیاں لانے کے علاوہ ہمیں اپنے پولیس کے نظام کو درست کرنا ہوگا اسے سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا ہوگا اور پروفیشنلزم و میرٹ کے اصولوں پر اس کی تنظیم نو کرنی ہوگی-پولیس کو عوام کے سامنے جواب دہ بنانا ہوگا-بیوروکریسی کو عوام دوست بنانے کے لیے لازم ہے کہ عوام اور بیوروکریسی کے درمیان جو فاصلے پیدا ہو چکے ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ وی ائی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے اور تمام سرکاری ملازمین کھلی کچہری لگا کر عوام کے مسائل سنیں- سرکاری ملازمین کی وہ تمام مراعات مفت بجلی مفت پٹرول اور مفت گیس ختم کر دی جائیں اور ان کو سادگی و کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل درامد کرنے کا پابند بنایا جائے-گڈ گورننس کی فراہمی کے لیے اور لوگوں کو انصاف مہیا کرنے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام بھی تبدیل کر دیا جائے- ججوں کی نامزدگی کے لیے ایک غیر جانبدار کمیشن مقرر کیا جائے جو میرٹ اہلیت اور سابقہ کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر ججوں کی نامزدگی کرے-جب تک سیاسی وابستگیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر ججوں کی نامزدگی کی جاتی رہے گی پاکستان کے عوام نہ صرف گڈ گورننس بلکہ انصاف سے بھی محروم رہیں گے-افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قومی بیانیے میں قومی اور عوامی مسائل کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا اور تمام بحثیں شخصیات اور سیاسی جماعتوں کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہیں-ایسی وقتی عارضی اور بے معنی بحثوں سے پاکستان کے اصل ایشوز نظر انداز ہوتے رہتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی مبذول نہیں ہوتی- آ ئین اور قانون کی بلا تفریق حکمرانی کے بغیر گڈ گورننس کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا-اور گڈ گورننس کے بغیر پاکستان کسی صورت ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا- دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے گڈ گورننس کے ذریعے ہی ترقی کی ہے- پاکستان کے مختلف شعبوں کے نظاموں پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں انسان سازی کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے-کیوں کہ نظاموں کو چلانے والے افراد ہی ہوتے ہیں- افراد اگر اہل نیک نیت اور محب وطن ہوں گے تو پاکستان کے ادارے اور شعبے بھی مثالی اور معیاری بن سکیں گے-تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہمیں نظام اور افراد دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم پاکستان کو مختلف نوعیت کے بحرانوں سے نکال سکیں اور ملک کے اندر سیاسی و معاشی استحکام کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھ سکیں- گڈ گورننس کے بغیر ریاست کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا اور نہ ہی عوام کے بنیادی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں-