ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ان کےدیگر ساتھی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔حادثے میں ہیلی کاپٹرمکمل تباہ ہوگیا جس کا بکھرا ہوا ملبہ مل گیا ہے جبکہ ساری لاشیں بری طرح جل گئیں۔واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ایران کی اعلیٰ قیادت کو امریکا ‘ اقوام متحدہ ‘ روس ‘چین پاکستان‘ بھارت ‘یورپی یونین ‘ سعودی عرب سمیت دنیابھر سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری رہا۔ سلامتی کونسل میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ ایران میں 5روزہ سوگ جاری ہے جبکہ پاکستان میں گذشتہ روز یوم سوگ منایا گیا اور قومی پرچم سرنگوں رہے۔ مرحوم صدررئیسی کی آخری رسومات آج بدھ کو تہران میں اداکی جائیں گی ‘سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے اول نائب صدر محمد مخبرکو2ماہ کیلئے حکومت کاعارضی سربراہ مقرر کردیاہے۔ محمد مخبر 50 روز کے اندر نئے انتخابات کروانے کے پابند ہیں جبکہ علی باقری کنی کو ملک کا قائم مقام وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی سفارتخانہ کا دورہ کیا جہاں تعزیت کا اظہار کیا گیا۔ صدر آف علی زرداری نے بھی صدررئیسی کی وفات پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا۔اسی طرح پاکستان کی دوسری سیاسی و دینی قیادتوں کی جانب سے بھی ایرانی صدر کے المناک حادثے سے دوچار ہونے پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا گیا۔
حادثے کے حوالے سے سامنے آنے والی ابتدائی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر فضا میں ہی تباہ ہو کر گرا جس کے علاقے میں ٹکڑے بکھر گئے۔کچھ ماہرین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے اندر دھماکہ ہوا ہو ، اسے میزائل یا راکٹ سے نشانہ بنایا گیا ہو یا لیزر بم استعمال کیا گیا ہو۔فنی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر فضا میں تباہ نہیں ہوتا اور اس کا ملبہ بھی نہیں بکھرتا۔ عموماً آگ بھی اس قدر نہیں لگتی کہ لاشیں بے شناخت ہو جائیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ سانحہ تخریب کاری کے نتیجے میں رونما ہوا ہے تو اس میں کون ملوث ہو سکتا ہے؟ کچھ تجزیہ نگاروں کی طرف سے اس حادثے کو ایران کی اندرونی سیاست کا شاخسانہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ایسے مواقع پر عموماً سازشی تھیوریاں، چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن ہر تھیوری کو سازشی قرار دے کر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا جب تک ذمہ دار فورم سے تحقیقات مکمل نہ ہو جائے۔
سابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کا امریکہ کو براہ راست ذمہ دار قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے سرکاری میڈیا کو انٹرویو کے دوران کہا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کی ذمہ داری امریکی پابندیوں پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی ایوی ایشن انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی عوام امریکی حکومت کے جرائم کو فراموش نہیں کریں گے۔
ابراہیم رئیسی اور ساتھیوں کی موت ایران کے لیے تو بہت بڑا نقصان ہے ہی جس کا کوئی متبادل ازالہ اور مداوا نہیں ہو سکتا جبکہ یہ حادثہ عالم اسلام کے لیے بھی کسی سانحے اور بڑے صدمے سے کم نہیں ہے۔ابراہیم رئیسی عالم اسلام کے اتحاد کے لیے اسی طرح کوشاں تھے جس طرح ماضی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل،پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو اور لیبیا کے صدر کرنل قذافی کردار ادا کرتے رہے۔ان کو ایک ایک کر کے سامراجی قوتوں نے راستے سے ہٹوا دیا تھا۔ آج اسی طرح مسلم دشمن قوتوں کی آنکھوں میں صدر رئیسی کھٹک رہے تھے۔پاکستان کے ساتھ ان کی دوستی اور قربت بھی کئی ممالک کے لیے ناقابل برداشت تھی اور صدر رئیسی کا حالیہ دورہ پاکستان بھی انہیں سخت ناگوار گذرا تھا اور امریکہ کی جانب سے اس پر سخت تحفظات کا اظہار بھی سامنے آ گیا تھا ۔فلسطین اسرائیل جنگ کے دوران شروع ہی سے ایران فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے اسی وجہ سے اسرائیل کی طرف سے ایران کے شام میں سفارت خانے پر حملہ کر کے 17 لوگوں کو شہید کر دیا گیا جن میں دو ایرانی جرنیل بھی شامل تھے۔اس کا جواب دیتے ہوئے ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل راکٹ برسائے تھے۔ ایران عالم اسلام کا بلکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ میں ملوث ہے۔اسرائیل اپنے دشمنوں کا پیچھا کرتے ہوئے کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔اگر ایرانی صدر اور ان کے ساتھیوں کا ہیلی کاپٹر تخریب کاری اور دہشت گردی کے نتیجے میں تباہ ہوا ہے تو اس میں ملوث ہونے والی قوتوں کو سامنے لایا جانا ضروری ہے اور یہ کام کوئی بین الاقوامی کمیشن یا فورم ہی کر سکتا ہے۔ایران کی طرف سے اسرائیل یا کسی پر بھی باقاعدہ اور براہ راست الزام نہیں لگایا گیا لیکن اسرائیل کی طرف سے از خود یہ کہہ دیا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں ہم ملوث نہیں ہیں۔
موسم کی خرابی اپنی جگہ مگر جس طرح تین ہمسفر ہیلی کاپٹروں میں سے صرف ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا اور اس کا ملبہ ٹکڑوں میں بکھرا ہوا ملا، ایسا ہیلی کاپٹر کے فضا میں دھماکے سے اڑنے،میزائل یا لیزر بم کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کے باعث ہی ہوسکتا ہے۔ تمام افراد کی لاشیں بری طرح سے جھلس گئیں۔ صرف ایک دو کی شناخت ممکن ہو سکی ہے۔اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے عالمی سطح کا تحقیقاتی کمیشن بنائے جانے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے بہترین پلیٹ فارم تو اقوام متحدہ کا ہو سکتا ہے لیکن اس پر ایران سمیت بہت سے ممالک اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ اقوام متحدہ آزاد اور خود مختار ادارے سے زیادہ کچھ قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اگر اقوام متحدہ آزاد اور خود مختار ادارہ ہوتا اور اپنی منظور کردہ قراردادوں پرعمل کرانے کی پوزیشن میں ہوتا تو مسئلہ کشمیر و فلسطین کب کا حل ہو چکا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کو ڈکٹیٹ کرنے میں امریکہ کو سر فہرست سمجھا جاتا ہے لہٰذا اقوام متحدہ کی طرف سے جو بھی کمیشن بنایا جائے گا اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ امریکی دباو¿ میں کام کر رہا ہے۔
ہیلی کاپٹر حادثہ کیسے ہوا؟ حقائق تک پہنچنے کے لیے او آئی سی کے ذریعے تحقیقات کرائی جا سکتی ہے۔ایران کے ادارے بھی تحقیقات کر کے حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایرانی آرمی چیف نے اس المناک حادثے کی تحقیقات کا پہلے ہی حکم دے دیا ہے مگر بہتر ہے کہ پاکستان اور ایران کی انٹیلی جنس ایجنسیاں مل کر تحقیقات کریں جس سے حقائق بہت کم مدت میں کھل کر سامنے آ سکتے ہیں۔
وزیرا