شدت کے ساتھ بدلتی موسمی کیفیت، ماحولیاتی ہراسیت

حناد عابد
ماحولیاتی آلودگی سے بڑھتے ہوئے مسائل پوری دنیا میں اب موسم کی شدت کو بے حد  ناقابل برداشت بنا چکے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی نا صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں، پرندوں، فصلوں کے علاوہ تقریبا تمام بے جان اشیا کے لیے بھی شدید خطرناک ہے۔ معروف عالمی ادارے بدلتی ہوئی شدید موسمی کیفیت کو "Environment Harrassement" کا نام دیتے ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ماحول کو  خراب کرنے میں فیکٹریوں،بڑھتی ہوئی ٹریفک، فصلوں کی باقیات کے جلاؤ سے اٹھنے والی آلودگی کے علاوہ آبادی میں اضافے اور درختوں کا تیزی سے کٹاؤ  جیسے اسباب شامل ہیں۔ ماحول کے ہراساں کرنے سے انسانوں پر جو گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے خلاف ECHR(European Court       Of Human Rights)
کا آرٹیکل 8 انسانوں کے حق میں آلودہ ماحول کی بھرپور مزاحمت کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت ماحولیاتی آلودگی انسانی زندگی کو ذہنی اور جسمانی طور پر شدید مشکلات میں ڈالتی ہے جوکہ سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی زمینی آلودگی سے بالواسطہ اور بلاواسطہ جنم لیتی ہے۔ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کی بنا پر دنیا کا پانچواں بڑا آلودہ ملک ہے۔ جو کہ جنوبی ایشیاء  میں بھارت اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر آلودہ ملک ہے۔ پاکستان میں رہائشی اور کمرشل علاقہ جات کا مخلوط ہونا انسانی زندگی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کمرشل علاقہ جات میں میتھین، کاربن اور کاربن مونوآکسائیڈ کی مقدار رہائیشی علاقوں کی نسبت دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جو کہ سانس، پھیپھڑوں اور جلد کی بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ کمرشل علاقوں کا درجہ حرارت بھی سر سبز علاقوں کی نسبت 5 ڈگری زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جوکہ قریبی شہری علاقوں کے ماحول کو بھی آلودہ کرتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 1998-2017 کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 166000 لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ میتھین گیس ایک مرتبہ اگر ہوا میں شامل ہو جائے تو تقریبا بارہ سال تک اس کے  اثرات ماحول میں موجود رہتے ہیں۔ لہذا فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں نہ صرف صحت کا دشمن ہے بلکہ یہ درجہ حرارت کو بھی بڑھانے کا باعث ہے۔
بڑھتی ہوئی ٹریفک پاکستان میں آلودگی اور درجہ حرارت کو بڑھانے کی اہم وجہ ہے۔ جاپان، جرمنی اور امریکہ جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک سائیکلوں کے استعمال اور پبلک ٹرانسپوٹ کے ذریعے اس سنجیدہ مسئلے کو قابو کر چکے ہیں۔ البتہ پاکستان کے بڑے شہر مثلا لاہور، کراچی، ملتان اورراولپنڈی بھی چنگچی، ویگنون اور دھواں چھوڑنے والوں کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کر سکے۔ ان تمام مسائل کے پیش نظر یواین او کی رپورٹ کے مطابق زمین کا درجہ حرارت ہر سال 2.9 فیصد بڑھ رہا ہے۔ ایک سادہ حساب کے مطابق اگلے پچاس سالوں میں درجہ حرارت 100 ڈگری کو عبور کر جائے گا اور دنیا راکھ کا ڈھیر ہوگی۔ بڑے شہروں میں ڈرائیوروں اور سارا دن مشقت کرنے والے مزدوروں میں ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔
فصلوں کی باقیات کو جلانا ہوا میں آلودگی اور درجہ حرارت کو بڑھانے کا باعث ہے۔ تقریبا 27,000 ایکڑ زمین کی باقیات کو پاکستان میں ہر سال جلایا جاتاہے۔ پڑوسی ممالک بھارت میں بھی جلنے والی فصلیں پاکستان کی ہوا پر گہرے برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھانے اور کاربن کی مقدار کو بڑھانے میں پاکستان کا صرف ایک فیصد حصہ ہے۔ جبکہ دیگر ممالک 99 فیصد ہوا کو آلودہ کرنے اور درجہ حرارت کو غیر یقینی حد تک بڑھانے میں قصوروار ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ممالک باہمی حکمت عملی کے ذریعے بڑھتی آلودگی اور سنگین درجہ حرارت کی نوعیت کو قابو کریں۔
بڑھتی ہوئی انسانی آبادی زمین کو ناقابل یقین حد تک زہریلا بنا رہی ہے۔ کرہ ارض پر سالانہ دس کروڑ تک انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔جوکہ بعدازاں سفر، کاروبار، تمباکو نوشی اور دیگر سرگرمیاں سرانجام دے کر مزید آلودگی کو طول دیتی ہے۔ماہرین کے مطابق ایک نئی گاڑی بھی ماحول کو آلودہ کرتی ہے تو دس کروڑ کی آبادی کس حد تک ماحول کو آلودہ اور درجہ حرارت کو بڑھانے کا باعث بنتی ہوگی۔یورپ میں ہونی والی ماحولیاتی آلودگی کے موضوع پر کانفرنس کا عنوان
"One Earth, Care and Share" تھا۔ جس کا مطلب ماحول کو مشترکہ طور پر صاف رکھنا سب کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ سال 2023 میں پاکستان کو بوجہ سیلاب 30 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کی بڑی وجہ بڑھتے ہو درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشئرز کا بیک وقت پگھلنا تھا۔ماحولیاتی آلودگی گزشتہ چند برسوں کے دوران تعلیم کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج رہی۔سال بھر تمام چھٹیوں کے علاوہ تعلیمی ادارے 365 میں سے 240 دن کھلتے ہیں۔ جبکہ  سموگ نے ان 240  دنوں کی کارکردگی کو کم کرکے 140 پر لاکھڑا کیا ہے۔ جبکہ نصاب کا مکمل ہونا طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لیے ایک بڑا دشوار کام ہے ۔ سابق فنانس منسٹر شمشاد اختر کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے 340 بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔جبکہ پاکستان کا عالمی وقار اکثروبیشتر 1 سے 2 ارب ڈالر کی خاطر آئی ایم یف کی شرائط تلے روندا جاتاہے۔ لہذا مطلوبہ رقم کی عدم دستیابی تعلیم اور پاکستان کے ذاتی وقار کے خلاف ہے۔پولیس سروس کے قابل افسر اور سی ایس ایس میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے اے ایس پی عاطف امیر کے انٹر ویو سے حاصل کیے جانے والے ماحولیاتی آلودگی کے متعلق  حقائق  حیران کن اور دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہیں۔ 2014  سے 2020 تک پاکستان میں دہشت گردی سے ہلاک ہونے والوںکی تعداد 60 ہزار ہے۔ جبکہ ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونی والی بیماریوں سے مرنے والوں۔کی تعداد 1 لاکھ 24 ہزار ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے  اثرات کو کم کرنا ایک ممکن کام ہے۔ سنگاپور، نیوزی لینڈ، فن لینڈ اور دیگر مغربی ممالک نے اس مسئلے کو مناسب حکمت عملے کے تحت جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔  ہمارے ہاںدرجہ حرارت کو قابو کرنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ و طالبات کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوسکتاہے۔ شجر کاری مہم، آگاہی کانفرنسز اور مختلف عملی خاکے اس پچیدہ مسئلے کو ختم۔کر سکتے ہیں۔ کمرشل اور رہائشی علاقوں کو الگ کرکے قیمتی جانوں کو بچایا جا سکتاہے۔ دھواں چھوڑنے والے کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں، گاڑیوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے ذرائع الیکٹرک ویکلز اور پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کرکے آدھی آلودگی پر قابو کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو کوپ 28, پیرس اگریمنٹ اور ایس سی او  کے تحت ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا چاہیے۔مصنوعی جنگلات لگا کر پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے نہ صرف چھٹکارہ حاصل کرسکتاہے بلکہ پکنک پوائنٹس بنا کر خطر زرمبادلہ بھی کما یاسکتاہے ۔ اپنے محفوظ مستقبل کیلئے ہمیںکلین اینڈ گرین پاکستان اور نیشنل کلائمیٹ پالیسی کے تحت ہاؤسنگ سوسائیٹیز کو گرین بیلٹ اور پیڑ کلچر کا پابند بنانا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن