کیا پی ایچ اے باغوں کے شہر کو اس کی ہریالی لوٹا پائے گی؟

اقوام متحدہ نے خبر دار کیا ہے کہ دنیا کو ا?ب و ہوا میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لیے صرف دو سال باقی ہیں لہذا زمین سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے ڈرامائی تبدیلیاں اور فیصلے ناگزیر ہیں۔ان کے انتباہ کا مقصد خاص طور پر جی 20 ممالک پر ا?ب و ہوا میں تبدیلی کو روکنے پر زور دینا تھا۔ ان ممالک میں امریکہ، چین اور بھارت جیسی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتیں شامل ہیں۔
یہ ممالک زمین سے حرارتی اخراج کے 80 فی صد کے ذمہ دار ہیں اور بقول اسٹیل انہیں اس سلسلے میں تخفیف کرنے کے منصوبوں کو اہمیت دینی چاہیے۔
مایرین کے مطابق غریب ممالک موسمیاتی تخفیف کی حکمتِ عملیوں کو نافذ کرنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔
چین جو خود کو ایک ترقی یافتہ ملک تصور کرتا ہے کو سال 2030 تک اپنی آب و ہوا اور ترقیاتی ترجیحات کو پورا کرنے کے لیے 2.4 ٹریلین ڈالر سالانہ لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکی سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین مہلک گیسوں کی سطح گزشتہ سال غیر معمولی سطح تک پہنچ گئی اور یہ گرم ترین سال ثابت ہوگا۔عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 1.1 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کی اہم وجوہات میں سے ایک درختوں کا کٹائو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر سال دنیا کے گنجان آباد شہر سموگ کی لپیٹ میں آتے ہیں جس سے سانس کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کو نقصان نمایاں ہے۔ 
ہم نے دیکھق کہ گزرے سال کے اختتامی چند مہینوں میں لاہور فضائی آلودگی کے لحاظ سے پہلے اور دوسرے نمبر پر رہا۔ جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری،گلہ خراب اور آشوب چشم کے امراض پھوٹ پڑے۔ اس کی بڑی وجہ  گزشتہ برسوں میں لاہور شہر میں درختوں کی کٹائی ہے۔
2021 کی ایک رپورٹ باغوں کا شہر لاہور اپنے 70 فیصد درخت کھو چکا ہے جس کی بڑی وجہ شہر کا تیزی سے پھیلناہے۔ نئی رہائشی سکیموں کے باعث ہر سال لا تعداد درخت کاٹے جا رہے ہیں جبکہ کاربن کے اخراج کے ذرائع بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے قدرت سے ٹکر سود مند ہے؟ہم جانتے ہیں کہ جیو انجینئرنگ کی تیکنیک میں  سے ایک شجرکاری تیکنیک ہے۔پاکستانی نڑاد صادق خان  لندن کے تیسری مرتبہ میئر  کیوں منتخب ہوئے؟ تو ان کی اس جیت سے متعلق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماحول دوست پالیسیز اور لندن کی فضا سے آلودگی کم کرنے سے متعلق اٹھائے گئے موثر اقدامات ہی صادق خان کی جیت کی اصل وجہ بنے ہیں۔ کیا ہم باغوں کے شہر کو آلودگی سے بچانے اور شہریوں کو صاف ہوا فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھا رہے ہیں یا نہیں یہ جاننے کے لیے ڈی جی پی ایچ اے محمد طاہر وٹو نے نوائے وقت کو بتایا کہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور شہر لاہورکو خوبصورت اور سموگ فری بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ گذشتہ سال اور رواں سال شہر بھر میں ساڑھے10 لاکھ  کے قریب درخت اور پودوں کی شجرکاری کا عمل مکمل کیا گیا۔رواں سال 2 لاکھ سے زائد  درختوں کی شجرکاری کے عمل کو مکمل کرلیا گیا ہے جس میں بڑی تعداد میں محمود بوٹی، علامہ اقبال ائرپورٹ اربن فاریسٹ اور کینال سمیت شہر بھر میں  شجرکاری جاری ہے۔ مزید شجرکاری کیلئے نجی و سرکاری ادارے، سکولز، کالجز اور این جی اوز کیساتھ ملکر شجرکاری کے عمل  کوآگے بڑھا رہے ہیں۔ سموگ کے خاتمے سے متعلق سوال کے جواب میں محمد طاہر وٹو نے بتایا کہ پی ایچ اے نے سموگ کے خاتمے کیلئے شجرکاری کیساتھ شہر کی تمام گرین بیلٹس اور پارکوں کو موسمی پھولوں کیمری گولڈ کے خوبصورت فلاور بیڈز سے سجایا ہے اورروزانہ کی بنیاد پر گرین بیلٹس پر درختوں اور پودوں کو پانی لگانے کے  عمل  کومانیٹرنگ سسٹم کیساتھ جاری  رکھا جو ابھی بھی ہے۔پی ایچ اے نے شہر لاہورکی بڑھتی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت کے ویڑن کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سال شہر میں تین بڑے باغ مزید بنائیں جائیں گے ، راوی شہر کے قریب 600 ایکڑ پر محیط باغ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیاجس پر جلدپلاننگ کیساتھ کام شروع ہوگا۔شجرکاری کے فروغ کیلئے گلبر گ میں سب سے بڑی کمرشل نرسری کاقیام عمل میں آیا ہے۔ جیل روڈ اور باغ جناح  پرفلاور شاپس بنائی گئی ،  جیلانی پارک میں بونسائی گارڈن کا قیام عمل میں لایا گیا،علامہ اقبال ائرپورٹ پر زیتون کا باغ لگاگیا،جبکہ شہر کی گرین بیلٹس کو پھولوں سے سجایا گیا۔ ڈی جی پی ایچ کے مطابق آج جو شجر کاری ہو رہی ہے اس کا نتیجہ ہمیں آئندہ چند سالوں میں خوش دے گا جب لاہور کی فضائی آلودگی میں واضح کمی دیکھنے کو ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن