ایرانی صدر کا انتقال، امیر جماعت اسلامی کی دعوت اور عمل!!!!

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چند ہفتے قبل پاکستان آئے تھے ان کے دورہ پاکستان میں دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور خطے میں امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی، پاکستان اور ایران نے مل کر پائیدار علاقائی امن کیلئے اتفاق کیا اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور تجارتی منصوبوں پر کام تیز کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ پاکستان میں ایرانی صدر کا بہت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کو دیکھتے ہوئے بھی اس دورے کو بہت اہمیت دی جا رہی تھی لیکن افسوسناک خبر یہ ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اب ہم میں نہیں رہے۔ وہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں انتقال کر چکے ہیں۔ اس حادثے میں ایرانی صدر کے ساتھ ان کے وزیر خارجہ بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ ایران کے لیے یہ مشکل وقت ہے، ہماری نیک خواہشات اور جذبات ایرانی قوم کے ساتھ ہیں اور اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت اور مرحومین کی مغفرت و بلندی درجات کے لیے دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت اور ان کے اہلخانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ ایرانی صدر کا ہیلی کاپٹر خراب موسمی حالات میں دیزمر جنگل میں کریش ہوا، پرواز کے آدھے گھنٹے بعد صدارتی ہیلی کاپٹر کا دیگر دو ہیلی کاپٹروں سے رابطہ منقطع ہوا۔ حادثے کی وجہ شدید دھند اور بارش کو قرار دیا گیا ہے۔ حادثہ ضلع اْوزی اور پیر داؤد قصبے کے درمیانی علاقے میں پیش آیا۔
پاکستان میں بھی اس حادثے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا اس ہیلی کاپٹر حادثے کی ہر زاوئیے سے کوریج کرتا رہا جب کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستانی صارفین ایرانی صدر محمد ابراہیم رئیسی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ ہیلی کاپٹر میں ایرانی صدر تو شہید ہو گئے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یہ حادثہ تھا یا پھر کوئی سازش کیونکہ جس انداز میں ایران اسرائیل کی مخالفت کر رہا تھا اس کے بعد ایسے واقعات کو صرف حادثہ سمجھ کر چھوڑا نہیں جا سکتا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے حوالے سے بات کی جائے تو وہ اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے ہیں، وہ مزاحمتی اپوزیشن اور ہر وقت احتجاجی سیاست کی حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی جگہ احتجاج کا ذرہ برابر موقع بھی ملے تو جماعت اسلامی کے موجودہ امیر وہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ ویسے ان کی جماعت مزاحمتی اور احتجاجی سیاست میں منفرد مقام رکھتی ہے لیکن گذشتہ چند برسوں سے صلاحیت کے باوجود جماعت اسلامی عوامی سطح پر اپنے نمبرز کو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور ہر گذرتے دن کے ساتھ محدود ہوتی جا رہی ہے۔ یہی حال قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ میری مختلف مواقع پر جماعت اسلامی کے اکابرین سے بات چیت ہوئی ہے ان صفحات کے ذریعے بھی انہیں نوجوان نسل تک پہنچنے ان کے مسائل پر توجہ دینے اور مخصوص سیاسی سوچ کے بجائے سیاسی سوچ میں وسعت کا پیغام دیا ہے۔ دیکھیں جماعت اسلامی کے لوگ کب اپنے مخصوص حلقے سے باہر نکلتے ہیں اور عام آدمی کو دعوت دے کر اپنے سیاسی نظرئیے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں جب ملک میں سیاسی افراتفری ہے، معاشی مشکلات ہیں، زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے، اندرونی و بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے، امن و امان کو خطرات لاحق ہیں ان حالات میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے اتحاد اور اجتماع کا پیغام دیا ہے۔ پہلے جماعت اسلامی میں وہ کسی اور عہدے پر تھے اب سراج الحق کے بعد جماعت کے امیر کی اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ اس اہم عہدے پر ہوتے ہوئے انہوں نے بہت اہم بات کی ہے ۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کہ "ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا۔ سب کو آئینی حدود میں رہنا ہو گا۔ ملک دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے، را اور بلیک واٹر ہمارے گھر میں داخل ہو چکے ہیں، بھارت کا ایجنڈا امریکا کا ایجنڈا ہے۔ پاکستان کی طاقت کو توڑا جا رہا ہے، ہم لڑنا نہیں چاہتے مگر امریکی قونصلیٹ کی جانب بڑھنے سے حکمران حرکت میں آ جاتے ہیں، جس دن جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا پھر کوئی ہمارا راستہ بند نہیں کرسکتا۔ حماس بن کر ہر ظلم کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے، حکمران حماس کو تسلیم کر کے زخمی فلسطینیوں کو پاکستان لائیں ان کا علاج ہم کرائیں گے۔ ہم فلسطین،کشمیر  اور میانمار کا مسئلہ بھی آگے لے کر جائیں گے، فلسطینی امت مسلمہ کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔"
حافظ نعیم الرحمٰن کے خیالات قابل قدر ہیں وہ اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں لیکن انہیں خود بھی تو کسی کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ اگر جماعت اسلامی ہر وقت سڑکوں پر رہے گی تو کیا اتحاد سڑکوں پر قائم ہو گا۔ اس کے لیے بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے اور مظاہرین سے بات چیت وقتی طور پر مسائل حل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ مسائل کے پائیدار حل کیلئے مستقل تعمیری گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حافظ نعیم الرحمٰن کو خود بھی اتحاد کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ ہو یا پنجاب انہیں ہر جگہ اتحاد کا پیغام دینے اور اس پیغام میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ جہاں تک تعلق ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال اور پاکستان کے دشمنوں کی کارروائیوں کا ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے ۔ یہ جو فساد پھیلا ہوا ہے اس میں بیرونی دشمنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اپنے لوگ کم علمی میں کم عقلی میں بیرونی دشمنوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ملک کے خلاف کام کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے مظاہرے اس کی تازہ مثال ہیں۔ جہاں تک بلیک واٹر اور "را" کا تعلق ہے اس میں کوئی مخفی بات نہیں یہ سازشیں تو پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج بھی ہم سیاسی تقسیم کی وجہ سے دشمنوں کو مواقع دیتے رہیں گے تو خدانخواستہ کسی بڑے سانحے کے بعد ہم کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے یہ ہماری اپنی خامی اور کمزوری ہے کہ ہم ملکی مفاد کے لیے بھی اتحاد کی طرف نہیں جا رہے۔ ہم تقسیم ہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ تقسیم میں اضافہ اور شدت آتی جا رہی ہے۔ ہم اپنے اداروں کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ دشمنوں کا مقابلہ بھی کریں، ترقی بھی ہو۔ ہر وقت نفرت آمیز رویہ، جذبات بھڑکانے والے بیانات کیا ایسے ہم اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔ ایسے تو نہیں ہو سکتا۔ 
آخر میں اشرف یوسفی کا کلام
کیسے کٹا یہ شب کا سفر دیکھنا بھی ہے
بجھتے دئیے نے وقت سحر دیکھنا بھی ہے
بے نام چاہتوں کا اثر دیکھنا بھی ہے
شاخ نظر پہ حسن ثمر دیکھنا بھی ہے
اب کے اسے قریب سے چھونا بھی ہے ضرور
پتھر ہے آئنہ کہ گہر دیکھنا بھی  ہے
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
ان آنسوؤں کے ساتھ بصارت ہی بہہ نہ جائے
اتنا نہ رو  اے دیدہ  تر دیکھنا بھی  ہے
ممکن نہیں ہے اس کو لگاتار دیکھنا
رک رک کے اس کو دیکھ اگر دیکھنا بھی ہے
منظر ہے دل خراش مگر دل کا کیا کریں
گو دیکھنا نہیں ہے مگر دیکھنا بھی ہے
اس آس پر کھڑے ہیں کہ اک  بار یوسفی
اس نے ذرا پلٹ کے ادھر دیکھنا بھی  ہے

ای پیپر دی نیشن