لاہور کے ٹیکسالی دروازے سے اٹھے ہمارے خطے کے یک وتنہا ملامتی شاعر شاہ حسین نے بہت سادگی سے یہ حقیقت بیان کررکھی ہے کہ ’’تخت‘‘ مانگنے سے نہیں ملا کرتے۔ تحریک انصاف مگر اس حقیقت کا کماحقہ ادراک نہیں کرپائی ہے۔ سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ انحصار نے میری دانست میں اسے عملی سیاست کے ٹھوس تقاضوں سے بے اعتنائی کی جانب دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ وہ سیاسی اعتبار سے ایک ’’متوازی دنیا‘‘ میں رہنا شروع ہوگئی ہے۔ ملتان میں اتوار کے روز قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج سیاسی عمل کے ٹھوس تقاضوں سے گریز کا واضح اظہار تھے۔
مزید لکھنے سے قبل اعتراف کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کے بے شمار حامی اس کالم کے ابتدائیے سے خفا ہوں گے۔ ان کی دانست میں میرا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جو شریف خاندان کے ’’لفافوں‘‘ یا آذربائیجان سے آئی ٹوکریوں کے لالچ میں حقیقت بیان کرنا تو دور کی بات ہے اس کے ادراک کے قابل بھی نہیں رہے۔ عاشقان عمران مصر ہیں کہ 8فروری 2024ء کے دن انہوں نے سوشل میڈیا کی بدولت پیغام رسانی کی صلاحیت کوانتہائی لگن اور مہارت سے استعمال کیا تھا۔ ان کی کاوشوں سے انتخابی نشان سے محروم ہوئی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے انتخابی نشانات ان کے حلقوں میں موجود تحریک انصاف کے ووٹروں کو بخوبی یاد رہے۔ روز انتخاب ان کی اکثریت نے امیدوار کی بھیجی ٹرانسپورٹ کا انتظار بھی نہیں کیا۔ ازخود گھروں سے نکلے اور خاموشی سے اپنی پسند کے امیدوار کی حمایت میں بیلٹ باکس پر ٹھپہ لگاکر گھر لوٹ آئے۔ رات گزرجانے کے بعد مگر 9فروری کے صبح سے فارم 45یا 47کا قضیہ شروع ہوگیا۔ اس قضیے کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے جان کھپانے سے گریز کو مجبور ہے۔
سیاسی اعتبار سے ٹھوس تقاضوں سے گریز کی حمایت میں جو دلائل دئے جائیں گے ان کی اکثریت کم از کم مجھے جائز وواجب سنائی دے گی۔ اس کے باوجود یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ سیاسی جماعت کیلئے اہم ترین اس کا بیانیہ ہوتا ہے۔ بیانیہ کے کلیدی نکات ہوتے ہیں۔انہیں مسلسل اجاگر کرنا لازمی ہے۔ 8فروری 2024ء کی شام سے تحریک انصاف کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اس کے حمایت یافتہ امیدوار بھاری اکثریت سے اسمبلیوں کیلئے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے پاس موجود فارم 45اس دعویٰ کو مستند ٹھہراتے ہیں۔ فارم 47نے مگر اقتدار موجودہ حکومت کے سپرد کردیا۔
فارم 45اور فارم 47کے مابین حقیقی یا زور زبردستی مسلط کیا ’’تفاوت‘‘ عدالتی عمل کی بدولت ہی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل عوام کی نگاہوں سے اکثر اوجھل رہتا ہے۔ کسی ایک حلقے میں ہارا ہوا امیدوار اور اس کا وکیل ہی اس مدعے پر ہوئی پیش رفت کو تیز تر بنانے کو بے چین رہتا ہے۔ اس کے علاوہ حتمی فیصلہ سازی کا تمام تر بوجھ بھی عدلیہ کے کندھوں پر منتقل ہوجاتا ہے۔ عوام کی اکثریت چند مخصوص حلقوں سے آئے نتائج پر اٹھائے سوالات کے بارے میں ہوئی عدالتی کارروائی سے عموماََ بے خبر ولاتعلق ہی رہتی ہے۔
ضمنی انتخابات اس کے برعکس کسی سیاسی جماعت کو سیاسی اعتبار سے متحرک رکھنے میں بے تحاشہ مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان پر توجہ دیتے ہوئے تحریک انصاف اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے کہ نام نہاد فارم 47کے ذریعے 8فروری 2024ء کے روز اس سے ’’جیت‘‘ چراکر فارم 45کی بدولت ہارے ہوئے لوگوں کے حوالے کردی گئی۔
تحریک انصاف کو اپنا یہ دعویٰ ثابت کرنے کیلئے ہر ضمنی انتخاب میں متحرک ہونے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مثال کے طورپر چند ہفتے قبل لاہور میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب ہوا جسے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف صاحبہ نے صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھتے ہوئے خالی کیا تھا۔ جن دیگر حلقوں میں اس روز ضمنی انتخاب ہورہے تھے انہیں کاملاََ نظرانداز کرتے ہوئے تحریک انصاف اگر لاہور کے فقط اس حلقے سے اپنا حمایت یافتہ امیدوار جتوانے پر تمام تر توجہ مرکوز کردیتی تو سیاسی اعتبار سے ’’رونق‘‘ لگ جاتی۔ حکومت کیلئے اس ایک حلقے پر میڈیا کے فوکس کی وجہ سے اپنا ’’اثرورسوخ‘‘بے دریغ انداز میں استعمال کرنا بھی تقریباََ ناممکن ہوجاتا ہے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی کی و ہ سیٹ ضمنی انتخاب کے ذریعے جیت جاتی تو اس کی فارم 47والی کہانی کو ٹھوس مثال فراہم ہوجاتی۔ ہار کی صورت میں ’’کم تر مارجن‘‘ بھی اسے ایک توانا اپوزیشن جماعت کے طورپر اپنا وجود منوانے میں مددگار ثابت ہوتا۔ تحریک انصاف نے مگر اس ضمنی انتخاب پر توجہ ہی نہ دی اور مسلم لیگ (نون) کے نامزد کردہ امیدوار نے اسے بآسانی جیت لیا۔
مجھے امید تھی کہ اتوار کے روز ملتان میں ہوئے ضمنی انتخاب کو تحریک انصاف لاہور کے برعکس سنجیدگی سے لے گی۔8فروری کے دن ہوئے انتخاب کے انجام پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس نشست پر بے شمار اعتراضات اور ری کا?نٹنگ کے باوجود صرف 103ووٹوں کی اکثریت سے جیت پائے تھے۔ ان کی ایسے نمبروں سے جیت فارم 47والی کہانی کو تقویت پہنچانے میں کلیدی مثال کی صورت بناکر پیش ہوئی۔ منتخب ہوجانے کے بعد مگر گیلانی صاحب نے اس نشست کوسینٹ کا چیئرمین منتخب ہونے کی خواہش میں خالی کردیا۔ خالی ہوئی نشست پر اپنے ایک اور فرزند کو بطور امیدوار نامزد کردیا۔
تحریک انصاف اس حلقے میں اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخاب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے گیلانی خاندان کو دیوار سے لگاسکتی تھی۔ عاشقان عمران کی اکثریت ’’موروثی سیاست‘‘ سے نفرت کرتی ہے۔ ملتان سے والد کی چھوڑی نشست سے بیٹے کا انتخاب ’’موروثی سیاست‘‘ کی اہم ترین مثال بنا کر پیش کی جاسکتی تھی۔ تحریک انصاف مگر اسے روکنے کو شدت سے متحرک نظر نہیں آئی۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف اب تنہا نہیں ہے۔ آئین کے تحفظ کیلئے اس نے اب چار دیگر جماعتوں سے اتحاد بھی بنالیا ہے۔ بلوچستان کے ایک قد آور رہ نما محمود خان اچکزئی مذکورہ اتحاد کے سربراہ ہیں جس میں سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے علاوہ بلوچستان کے اختر مینگل کی جماعت بی این پی بھی شامل ہے۔ مذکورہ اتحاد اور اس کے قائدین نے مگر گیلانی خاندان کو ہر صورت ضمنی انتخاب میں ہروانے کیلئے ملتان میں ’’خیمہ‘‘ لگانے سے گریز کیا۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ تیمور ملک یہ انتخاب تقریباََ تنہا ہی لڑتے نظر آئے۔ ان کی کاوشوں کو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا دلاوروں نے بھی مناسب انداز میں پروجیکٹ نہیں کیا۔ بالآخر جو نتیجہ برآمد ہوا وہ یوسف رضا گیلانی کے فرزند کو اپنے مد مقابل سے تقریباََ35ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوتا دکھارہا ہے اور اس حلقے میں فارم 45اور فارم 47کی تکرار بھی نہیں ہوئی۔ بے شمار مشکلات میں گھرے عوام کی یادداشت سیاسی موضوعات کے بارے میں بہت کمزور ہوتی ہے۔ تحریک انصاف اگر ضمنی انتخاب کے ساتھ بے اعتنائی کا رویہ برقرار رکھے گی تو عوام کی اکثریت فارم 47والی کہانی کو بتدریج بھولنا شر وع ہوجائے گی۔ 8فروری2024ء کا دن سیلاب کی طرح آیا اور گزر گیا محسوس ہونا شروع ہوجائے گا۔
ملتان کا ضمنی انتخاب اور فارم 47 والی کہانی۔
May 22, 2024