اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ کے دلائل بھی مکمل نہ ہو سکے۔ عدالت نے حامد علی شاہ کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ اپیلوں پر فیصلے کا عندیہ بھی دے دیا۔ سماعت کے آغاز پر سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ آج اپنے دلائل مکمل کر لوں۔ حامد علی شاہ نے ڈیجیٹل شواہد، دستاویزی شواہد اور ان کے اثرات سے متعلق چار عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ حامد علی شاہ نے بانی پی ٹی آئی پر عائد فرد جرم عدالت کے سامنے پڑھی اور موقف اپنایا کہ پہلا جرم یہ ہے کہ سائفر کو پبلک کیا۔ دوسرا جرم یہ کہ سائفر کی کاپی سوشل میڈیا پر لیک کی گئی اور تیسرا جرم یہ ہے کہ سائفر پبلک کرنے سے خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچایا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کی ساری باتیں مان لیتے ہیں صرف اتنا بتائیں کہ جرم کیا ہوا ہے؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ خفیہ دستاویزات کو پبلک کرنے پر بیرونی طاقتوں کو فائدہ ہوا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کس بیرونی طاقت کو ان سے فائدہ ہوا ہے؟ خارجہ تعلقات خراب ہوئے تو کسی کے کہنے سے خراب تو نہیں ہوں گے؟ حامد علی شاہ نے موقف اپنایا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خرابی کے شواہد کیا ہیں؟ کیا آپ نے شواہد میں ڈی مارش پیش نہیں کیا؟ ڈی مارش کوئی خفیہ دستاویز تو نہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ شاہ صاحب آپ نے ایک بندے کو ساری عمر کے لیے جیل میں ڈال دیا ہے۔ سوائے ایک خاتون کے واٹس ایپ میسج کے سوا شواہد کہاں ہیں؟ کہاں ہیں وہ دستاویزات جس میں ہو کہ ہمارے تعلقات خراب ہوئے؟ انہوں نے ہمارے طلباء کو ملک بدر کیا ہو، سفارتی یا کاروباری تعلقات ختم کیے ہوں تو بتائیں؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ بانی پی ٹی آئی نے بین الاقوامی میڈیا اداروں کو سائفر کے مندرجات پڑھ کر سنائے اور خود بتا رہے ہیں کہ امریکہ نے کیا کہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بانی پی ٹی آئی کے سائفر سے متعلق بیانات کو پبلش کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دئیے کہ جو بیانات اپ دے رہے ہیں وہ سیاسی مخالفین کے بیانات ہیں، کم آن سر، یہ سیاست ہے۔ سیاسی مخالفین نے تو یہی کہنا ہے نا۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ قانون میں واضح ہے کہ خفیہ دستاویزات کو کہیں بھی ڈسکس نہیں کیا جا سکتا۔ سابق سفیر اسد مجید، سیکرٹری وزارت خارجہ سہیل محمود اور فیصل ترمذی کے بیانات موجود ہیں۔ اجازت کے بغیر کسی بھی خفیہ دستاویزات کو کہیں بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 14 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ آفیشل دستاویز کو کہیں بطور شہادت پیش نہیں کر سکتے۔ ایف آئی اے کی جانب سے سائفر مانگا گیا تھا مگر نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی اے کو نہیں دے رہے تو ٹھیک، مگر عدالت کو تو دے سکتے ہیں، اگر ہم سائفر مانگ لیں تو؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ دستاویز صرف عدالت کو دکھانے کے لیے لا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت اس دستاویز سے متعلق فیصلے میں نہیں لکھ سکتی تو پھر کیا ضرورت ہے؟ چیف جسٹس نے سپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے آج دلائل ختم کرنے تھے، ڈیڑھ گھنٹے میں ختم نہیں ہوئے؟ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ کے سوالات زیادہ تھے اسی وجہ سے ختم نہیں کر سکا۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو جواب الجواب دلائل کل پندرہ منٹ میں ختم کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور سائفر کیس میں تعینات سٹیٹ کونسلز کو پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آج ہم فیصلہ دیں گے تو ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر حاضری یقینی بنائیں۔
سائفر کیس، آج فیصلہ دینگے تو ایڈووکیٹ جنرل دیگر حاضری یقینی بنائیں: ہائیکورٹ
May 22, 2024