جمعرات ‘ 7 محرم الحرام ‘ 1434ھ 22 نومبر2012 ئ

جیالوں کی پولیس سے ہاتھا پائی رکاوٹیں توڑ کر ایوان صدر داخل ہو گئے۔
جیالوں کے سامنے پولیس بے بس کیوں ہو جاتی ہے؟ ڈاکٹروں اور وکیلوں پر تو اسکے ڈنڈے ایسے بے رحمی سے برستے ہیں جیسے گھوڑے پر کوچوان کے ”شانٹے“ جیالوں کو بجز لڑائی کے اور آتا ہی کیا ہے‘ پانچ سال پولیس کو مار لیں‘ پھر ڈنڈے ہی کھانے ہیں۔ گورنر پنجاب کہتے ہیں میں بھی جیالا ہوں، ایک جیالا گورنر بن گیا باقیوں کو بھی کسی کھاتے میں لگا لیں‘ پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے تو ابھی تک دیوار سے لگے ہوئے ہیں‘ بی بی کے غم سے وہ آج تک نکل نہیں سکے‘ اب جو جیالے اقتدار میں بیٹھے ہیں‘ بی بی کے دور میں تو یہ بارہویں کھلاڑی شمار ہوتے تھے۔ اسی لئے تو آج وہ صدر محترم کے بارے گنگناتے ہیں
کوشش کے باوجود بھلائے نہ جائیں گے
ہم پر جو دوستوں نے کئے ہیں کرم یہاں
ایوان صدر میں پولیس سے ہاتھا پائی کرنے والے جیالے تو موسمی پرندوں کی طرح تھے۔ آج اس دَر توکل اُس دَر۔ 10 سال آمریت کی چکی میں پسنے والے پی پی کے حقیقی کارکنوں پر تو آج ہر دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن اسکے باوجود وہ لاڑکانہ کے ساتھ ہی لٹکے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اصل ”کریم“ تو یہی ہوتی ہے لیکن انکی قدر کوئی نہیں کرتا۔
٭۔٭۔٭۔٭
سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع ہے نہ کوئی جرم کیا، اپیل کیوں کروں : اسلم بیگ
جب انسان کا دامن صاف ہو تو وہ بے گناہی ثابت کرنے کیلئے دشمن کے پاس بھی جا سکتا ہے لیکن جب دال میں کالا کالا ہو تو انسان اپنے گھر جانے سے بھی ڈرتا ہے۔ سابق آرمی چیف فوجی جوانوں کا نام لیکر قوم کو ایسے ڈرا رہے ہیں جیسے مائیں رات کو ”بھا¶ بلے“ کا نام لیکر بچوں کو ڈراتی ہیں۔ کسی اور کا احتساب سرعام ہو تو زیادتی نہیں، خاص کا ہو تو زیادتی، واہ سبحان اللہ ! اسی دوہرے معیارِ انصاف نے ہماری ترقی روک رکھی ہے۔ جمہوریت اور بے انصافی ایک ساتھ تو نہیں چل سکتے۔ عدل و انصاف میں سویلین اور فوج کیساتھ ایک جیسا ہی برتا¶ ہونا چاہئے۔ تفریق ڈالنے سے معاشرے بکھر جاتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
پی پی سے ملک کر آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا کر دیں گے : پرویز الٰہی
بس چار پانچ مہینے کی بات ہے یہ میدان اور یہی گھوڑے، سابق صدر پرویز مشرف کو بھی بُلا لیں جسے آپ 10 مرتبہ وردی میں منتخب کروانے کا اعلان کرتے ہیں، شاید پھر بھی آپکی خوش فہمی پوری نہ ہو، بہرحال ع .... پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
چوہدری صاحب خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں، آپ یہ بھی اعلان کر سکتے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم میںہوں گا، ویسے خواب دیکھتے دیکھتے شیخ چلی کے انڈے ٹوٹ گئے تھے، آپ خیال رکھئے گا۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا
اے ظفر راہِ وفا میں جو رہا ثابت قدم
رفتہ رفتہ ہو گیا وہ رہ نمائے وقت
اقتدار کا ”ہُما“ انہیں کے سر بیٹھتا ہے جو کارکنوں کے دلوں میں بسیرا کرتے ہیں، الیکشن کے نزدیک آتے ہی پتہ چلے گا کہ پی پی اور (ق) لیگ کا اتحاد کہاں ہے؟ آپ لوگوں نے اگر عوام کیلئے کچھ بھی کیا ہوتا تو کامیابی مل سکتی تھی، لیکن ”اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں میں“ کہاوت پر عمل کرتے ہوئے سب کچھ رفقا کو ہی ملا ہے، عوام تو اب بھی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
بنگلہ دیش : ایک بیوی ہندو دوسری مسلمان، شوہر کی میت دفن ہو گی یا جلائی جائے گی؟
بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کا فیصلہ تو بہترین ہے کہ جلا¶ نہ دفنا¶ بلکہ میڈیکل کالج کو ریسرچ کیلئے دے دو ۔اب میڈیکل کالج کے طلبہ اس پر ریسرچ کریں گے اور باقیات کو شاید مصالحہ لگا کر سٹور میں رکھ دیں، ویسے شوہر نے بھی ٹھیک لُچ تلا ہوا تھا۔ جو دو کشتیوں پر سوار ہوتا ہے اس کا بُرا ہی حال ہوتا ہے لیکن آج پتہ چل گیا ہے کہ بات صرف حال تک موقوف ہی نہیں بلکہ ”خانہ خراب“ تک جا پہنچتی ہے۔ عدالت نے تین سال میں فیصلہ سُنایا ہے۔ اگر ذرا جلد سُنا دیتی تو کئی افراد کیلئے شاید سبق کا باعث بنتی۔ پروفیسر نے جب دو تلواروں کو ایک نیام میں رکھ لیا تو پھر مرتے وقت جلانے یا دفن کرنیکی وصیت بھی کر جانی تھی تاکہ دونوں بیویوں میں سے کسی ایک کو تو اپنی حیثیت کا پتہ چلتا کیونکہ دونوں مکھیوں کی طرح ساتھ چمٹی رہیں لیکن سرتاج سے مذہب کا نہ پوچھ سکیں۔
٭۔٭۔٭۔٭
نااہل انتظامیہ، 18 ہزار مال گاڑیاں چلتے چلتے رہ گئیں۔
مال گاڑیوں کا مال کس کے پیٹ میں گیا، چار ہزار کے لگ بھگ گاڑیاں کہاں گئی؟
زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا
آخر وہ کوئی ہوائی چیز تو تھی نہیں جو آناً فاناً غائب ہو گئی، غلام بلور کی بڑی مہربانی ہو گی اگر جناب قوم پر رحم کھاتے ہوئے ریلوے کا پیچھا چھوڑ دیں۔ ریلوے ٹریک کے علاوہ تو اب ویسے بھی اس کے پاس کچھ نہیں، آجکل تو ریلوے پر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ آدمی پیدل سفر کر لے یقینی طور پر وہ منزل پر پہلے پہنچ جائے گا۔ مصر میں چند دن قبل ریلوے کو حادثے پیش آیا تو وزیر اور سربراہ دونوں مستعفی ہو گئے تھے لیکن بلور جی تو ساری ریلوے ختم کرنے کے باوجود پا¶ں پر پانی پڑنے نہیں دے رہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک جدی پُشتی چور کو گرفتار کر لیا گیا تو پولیس نے اپنے روایتی انداز سے تفتیش کی تاکہ وہ چوریاں مان لے لیکن وہ انکاری تھا۔ چور نے پولیس سے کہا کہ جناب مجھے کھانا کھلا دیں۔ پولیس نے کھانا کھلا دیا تو چور نے کہا کہ جناب جو آپ نے مجھے ابھی کھانا کھلایا ہے اگر آپ مجھ سے یہ منوا لو کہ میں نے کھایا ہے تو آپ چوریاں بھی منوا سکو گے۔ تو جناب اسی کو کہتے ہیں ”چوری اور سینہ زوری“ ریلوے ایک تو تباہ ہو چکا ہے دوسرا ریلوے حکام سینہ تان کر کھڑے ہیں جناب کچھ نہیں ہُوا ہمارے پاس تھا ہی کیا جو ختم کرتے۔

ای پیپر دی نیشن