پاکستانی سیاست میں دلچسپی لینے والے عمومااور مسلم لیگی کارکن خصوصاجانتے ہیں کہ 22نومبر جناب پیر صاحب پگارو کی سالگرہ کا دن ہے کیونکہ شاہ مردان شاہ ثانی پیر آف پگارو عرصہ دراز تک اپنی سالگرہ بڑے دھوم دھڑکے اور پروقارانداز میں مناتے رہے ہیں ۔پیر پگارو ایک ایسی عسکری تحریک کے روحانی رہبر ہیں جس کی سرفروشانہ خدمات کی درخشاں داستانیں سابقہ سوا صدی پر محیط ہیں ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں احیائے اسلام کے لئے تسلسل کے ساتھ سب سے بڑی عسکری جدوجہد کے امین حضرت پیر صاحب پگارواور ان کی حر جماعت ہے ۔آپ سیاست کی ابتداء میں صوبہ سندھ کی حدتک دلچسپی لیتے تھے مگر پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کے سخت گیر رویوں کے باعث جب آپ کو متحدہ حزب اختلاف نے قیادت کی درخواست کی تو آپ نے پہلے انکار کیا مگر جب حالات اس نہج تک پہنچے کہ بھٹو کا مقابلہ ملک گیر سطح پر کرنا نہایت ضروری اور ناگزیر ہوگیا توآپ نے مسلم لیگ کی قیادت قبول فرمائی ۔حضرت پیر صاحب پگارو کی مدبرانہ قیادت کے باعث بکھری ہوئی مسلم لیگ ایک ملک گیر تنظیم میں ڈھلتی چلی گئی ۔ آپ کا مخصوص انداز سیاست اور طرز تکلم کے باعث بھٹو مخالف تمام قوتیں یکجا ہونے لگیں ۔1977ءکے الیکشن کے بعد تحریک نظام مصطفی میں آپ کی شخصیت کے سیاسی پہلو مزید نکھر کر سامنے آئے ۔1977ءکے مارشل لاءجب آئین پاکستان معطل ہوگیا ۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی تو حضرت پیر صاحب پگارو نے اس تاریک دور میں اپنے فراصت اور کمال ذہانت سے سالگرہ کے نام پر سیاست کا راستہ دریافت کرکے ہم عصروں کو حیران کر دیا ۔ حضرت پیر صاحب پگارو 22نومبر کو سالگرہ کے حوالے سے کئی دن پہلے ملاقاتوں و مشاورتوں کا آغاز کرتے ۔سالگرہ کا مقام کیک کا وزن پر اخبار میں خبریں چھپتیں ، قیاص آرائیں ہوتیں ۔سیاسی کارکن اور اخبار نویس شرکت کی تمنا رکھتے ۔غیر سیاسی دور میں ایک عجب سا شورو غوغہ دیکھنے اور سننے کو ملتا پھر سالگرہ کے دن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اور دوسرے سیاسی دوستوں کو یکجا کرکے وہ سب کر گزرتے جو مسلم لیگ کے اجلاس میں ہوا کرتا تھا ۔ ورکنگ کمیٹی اور دوستوں سے وسیع مشاورت کا عمل مکمل کرنے کے ساتھ اپنے کارکنان اور قوم کو موقع محل کے مطابق پیغام جاری کرتے ۔ آئندہ حکمت عملی کا لائحہ عمل بھی بتادیا جاتا ۔پیر صاحب پگارو مختلف طرز عمل اس سلیقہ اور قرینہ سے نبھاتے کہ مروجہ قانون کی حد اور زد سے محفوظ رہ کر وہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے جو کہ ان کی جماعت کو درکار ہوتے ۔ اخبارات میں سیاسی خبریں شائع کرنے پر پابندی تھی لہذا پیر صاحب واحد سیاستدان تھے جو اپنی غیر سیاسی گپ شپ ، تبصروں اور پیش گوئیوں کے ذریعے مارشل لاءکے ضابطوں کے قریب سے گزرجاتے ۔ آپ ذومعنی جملوں ، اشارے کنائیے کے زور پر ساری بات سمجھا جاتے ۔ اس دور میں پیر صاحب کی سالگرہ کے پروگراموں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سالگرہ ایک سیاسی پلیٹ فارم کی شکل اختیار کرجاتی ۔ اس کا اظہار متعدد مرتبہ حضرت پیر صاحب خود بھی کر چکے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ سالگرہ تو بچوں کی ہوتی ہے ۔ ہلا گلا شور شرابہ کرتے ہیں میری سالگرہ تو سیاسی سالگرہ ہے ۔ یہاں گپ شپ ہوتی ہے مگر سیاسی ہلا گلا مسلم لیگ کا منشور نہیں البتہ شور شرابا اخبار والے خود ہی کر دیتے ہیں ۔
حد تو یہ ہے کہ مارشل لاءکی پابندیوں کے باوجود پیر صاحب اس محفل میں مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق کو بھی مدعو کرنے سے نہیں چوکتے۔پیر صاحب پگاروکو برجستہ جواب دینے مختصر ترین جملوں میں داستاں بیان کرنے میں عجب ملکہ حاصل ہے ۔ آپ الفاظ کو ٹوسٹ کرتے ہوئے چٹکلوں میں لپیٹ کر مشکل ترین بات کو بڑی آسانی سے مخالف تک لُڑھکا دیتے ۔آپ کا انداز سب سے جدا تھا ۔ آپ بڑی سنجیدہ بات غیر سنجیدہ انداز میں کرتے جس سے مذاق مذاق میں مطلوبہ ہدف آسانی سے حاصل کر لیتے ۔ 1977ءکے قومی اتحاد کے تجربے کے بعد سیاسی اتحادوں سے گریز فرماتے مگر اپنی منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے حالات کو اپنے حق میں ڈھالنے اور مخالفوں پر جملوں کے حملوں سے لرزا طاری کردیتے جیساکہ ایک مرتبہ مجلس عمل کے مستقبل کے بارے میں سوال کے جواب میں حضرت پیر صاحب نے ایک جملہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ متحدہ مجلس عمل کا اتحاد وضو کی مانند ہے کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے ۔وزیراعظم جونیجو اور صدر ضیاءالحق کے درمیان سرد جنگ پر تبصرہ بلی چوہے کے کھیل سے تشبیہ دیتے ہوئے قوم کو حالات سے آگاہ کرتے رہے ۔ آپ کے انداز کو دوسرے سیاسی لوگوں نے اپنانے کی کوشش کی مگر ان لوگوں کا کسی طور پر پیر صاحب سے مقابلہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ آپ کی زندگی جن سنگین اور کٹھن مرحلوں سے عبارت ہے آپ کے بزرگوںکی عظیم قربانیوں جرات و عظمت کی کہانیوں کے باعث آپ کو جو مقام حاصل ہے پاکستان میں کوئی دوسرا سیاست دان اس حوالے سے آپ کا ہم پلہ نہیں ۔ پیر صاحب کی 63ویں سالگرہ کے موقع پر کنگری ہاﺅس کے گیٹ کو برقی قمقموں سے آراستہ جگ مگ ہونے کے ساتھ سبزہ زار میں عشائیے کا اہتمام تھا ۔ سٹالوں پر 63رنگین غبارے آویزاں تھے ۔63پاﺅنڈ کا کئی منزلہ خوش نما کیک اور عنقا اقسام اور اعلیٰ معیار کے کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کا اہتمام تھا ۔
سالگرہ میں سیاسی دوستوں ، رہنماﺅں ، اعلیٰ افسران کے علاوہ وزیر اعظم جتوئی ،پروفیسر غفور ، نواب زادہ نصراللہ خان ، مخدوم امین فہیم ، وزیراعلیٰ جام صادق ، خواجہ خیر الدین ، غوث علی شاہ ، سید مظفر علی شاہ ، ذوالفقار علی جاموٹ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اقبال احمد خان ، بوستان علی ہوتی کے علاوہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی اور دیگر خواتین حضرات موجود تھے ۔پیر صاحب نیلے سوٹ میں بڑے ہشاش بشاش چاق و چوبند نظر آرہے تھے ۔ آپ نے بذات خود مہمانوں کو پلیٹیں دیں ۔گلدستوں اور پھولوں کے ہاروں کا ایک جانب انبار تھا تو دوسری طرف کئی میزیں تحفوں سے اٹی پڑی تھیں ۔ پیر صاحب کی سالگرہ تھی یا زندہ پیر کا میلہ تھا ۔ایک اور سالگرہ کے موقع پر اخبار نویسوں نے کہا آج آدھے تحفے ہمارے ہونگے تو پیر صاحب نے حکم دیا کہ سارے تحفے اور پھول اخباری رپورٹراور کیمرہ مینوں میں تقسیم کر دیے جائیں ۔ حضرت پیر پگارو کو قریب سے جاننے والوں کو معلوم ہے کہ آپ بڑے صابر شاکر معاملہ فہم دور اندیش ہونے کے ساتھ مردم شناسی میں خاص مقام رکھتے تھے ۔ آج ہم ایسی محب وطن قیادت سے محروم ہیں اسی لئے ہمارے معاملات میں سلجھاﺅ نہیں آرہا ۔ راقم کا دعوی ہے اگر پیر پگارو کے ہاتھ میں ملکی باگ دوڑ آجاتی تو وطن عزیز آج عالم اسلام کی امامت و قیادت کے فریضے پر فائز ہوتا ۔اللہ تبارک تعالیٰ حضرت شاہ مردان شاہ ثانی پیر صاحب پگارو کے درجات کو مزید بلند کرے اور ہمیں آپ جیسی ہمت جرات اور استقلال عطا فرمائے۔