اسلحہ سے پاک!

Nov 22, 2012

فضل حسین اعوان

عالمی میڈیا میں آنے والے اعداد و شمار کے مطابق‘ 88.8 فیصد امریکیوں کے پاس آتشیں اسلحہ ہے۔ یمن کے شہری 54.8 فیصد کے ساتھ دوسرے سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ کے 45.7 اور45.3 کے ساتھ بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ امریکہ میں اسلحہ کلچر کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔بی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے امریکیوں کی اسلحہ اندوزی کے حوالے سے دلچسپ رپورٹیں شائع کی ہیں امریکہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آئینی طور پر ہر بالغ شہری کو ہتھیار یا بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اگر آپ کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زائد ہے، آپ امریکی شہری ہیں اور آپ کا کوئی پہلے سے مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے تو آپ محض اپنا ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی دستاویز کسی بھی اسلحے کی دکان پر دکھا کر بندوق خرید سکتے ہیں۔امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘ اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔ البتہ گولی کے زور پر ہی انہوں نے امریکہ پہنچ کر قبضہ کیا تھا۔
عوام کے پاس اسلحہ کی بہتات اور بھرمار‘ لاقانونیت‘ دہشت گردی و امن و امان کی خرابی کی وجہ ہوتی تو امریکہ سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ میں امن و امان اور استحکام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ ہمارے سیاستدان ”اسلحہ سے پاک“ کی بات کر رہے۔ آج کل اس نعرہ کو لے کر ہمارے پارلیمنٹیرین آگے آگے ہیں۔ 19 نومبر 2012ءکو سینٹ میں کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد پیش اور پاس کی گئی۔ دوسرے روز قومی اسمبلی میں ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قرارداد لائی گئی وہ بھی منظور ہو گئی۔ سینٹ میں پیش ہونے والی قرارداد کی محرک اے این پی تھی جس کی مخالفت متحدہ قومی موومنٹ نے کی۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں متحدہ کی پیش کردہ قرارداد مسلم لیگ ن‘ اے این پی اور جے یو آئی کے دل کو نہ لگی۔ گویا گریجوایٹ پارلیمنٹیرین کے مابین کراچی یا پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ قراردادیں اکثریت رائے سے منظور ہو چکی ہیں۔ کسی بھی قرارداد کی حیثیت تجویز کی سی ہوتی ہے اس کو قانون کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم پارلیمنٹ کے وقار کا تقاضا ہے کہ اس کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے جتنی بے توقیری موجودہ پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے والوں کے ہاتھوں ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمان کی متفقہ قراردادوں کو حکومت نے کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اور ہفتہ وار تعین کے خاتمے کی قراردادوں کو حکومت نے پذیرائی نہیں بخشی۔ تیل و گیس کی ہفتہ وار قیمتوں کے تعین کا خاتمہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا۔ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادیں بھی گذشتہ کئی قراردادوں کی طرح بے توقیری کی مٹی میں مل جائیں گی۔ جہاں تو قانون کو کوئی نہیں پوچھتا قراردادوں کی کیا اہمیت ہو گی! کراچی و ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی قراردادوں کی حیثیت ڈرامہ اور تماشا سے زیادہ نہیں ہے۔ ان سے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین کا وقت ضائع ہوا۔ سیاستدانوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بعض کے مابین نئی تلخیوں نے جنم لیا۔ یہی ان قراردادوں کا حاصل ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ صرف کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مخالفت کر رہی ہے۔ متحدہ مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت کی اتحادی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے متحدہ کو ناراض کرکے کراچی میں بے رحم آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ متحدہ کا موقف اصولی ہے کہ اسلحہ کے خلاف آپریشن صرف کراچی ہی میں کیوں۔ پورے ملک میں کیوں نہیں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورے ملک میں اسلحہ کے خلاف آپریشن ممکن ہی نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ‘ فاٹا اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں لوگ اسلحہ کو اپنا زیور سمجھتے ہیں۔ ہر شخص بلاضرورت بھی اپنے پاس اسلحہ رکھتا ہے۔ یہ ان کی روایات اور کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ کسی سے اس کا کلچر نہیں چھین سکتے۔ امریکہ میں کئی بار گن کنٹرول لاءلانے کی کوشش کی گئی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ آپ قبائل جیسے روایات پر ایمان کی حد تک کاربند معاشرے سے اسلحہ کیسے واپس لیں گے؟ بالفرض ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم شروع ہوئی ہے تو اس کا آغاز کہاں سے ہو گا؟ کراچی سے خیبر پی کے‘ فاٹا یا بلوچستان سے؟ کیا اس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق رائے ہو جائے گا؟ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کیا آج کے حکمران ہر مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے بلاامتیاز آپریشن کی جرات رکھتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ کراچی یا ملک کو اسلحہ سے پاک کیوں کیا جائے؟ یہ ضرورت لاقانونیت بدامنی‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت جیسے جرائم کے باعث محسوس کی گئی ہے کیا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کراچی جیسے بدترین حالات میں جہاں آپریشن کیا جائے؟ قبائل کے پاس تو اسلحہ صدیوں سے موجودہ ہے۔ ان علاقوں میں امن و امان بگڑا ہوا ضرور ہے لیکن اس کی وجہ ہر آدمی کے پاس من مرضی کا اسلحہ ہونا نہیں ہے۔ پھر وہاں اسلحہ کے خلاف آپریشن کا جواز نہیں رہتا۔ ضرورت کراچی سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں امن کے قیام کی ہے۔ کیا امن صرف ہر شخص سے اسلحہ چھین لینے سے قائم ہو سکتا ہے؟ ملک کے بہت سے حصوں میں اسلحہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں۔ قتل و غارت بھی ہوتی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ممنوعہ بور کے اسلحہ کے بے شمار لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی جرائم پیشہ لوگ خطرناک اور غیر ممنوعہ اسلحہ خرید سکتے ہیں۔ پرامن شخص کے حوالے آپ ٹینک اور توپ بھی کردیں تو وہ اس کو تخریب دہشت اور وحشت کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ اگر ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور دیگر بااثر رہبرو رہنما لاقانونیت‘ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی وجوہات ختم کر دیں تو کسی کے پاس پڑ اسلحہ کسی کے لئے خطرناک ثابت ہو گا نہ اس سے واپس لینے کی ضرورت پڑے گی۔ قانون کی بالادستی ہو تو بھی ہر گھر میں اور ہر شخص کے پاس موجود اسلحہ سے کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ کراچی میں کیا کبھی قانون کی عملداری کی کوشش کی گئی؟ پے رول پر رہائی کی سہولت قاتلوں اور دہشت گردوں کو نہیں دی جاتی اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے رہائی کی۔ قانون پر عملداری یقینی بنا دی جائے تو جائز اور ناجائز اسلحہ کا استعمال خود بخود رک جائے گا۔
کراچی اور ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے اگر پرخلوص‘ نیک نیت‘ دیانتدار اور قوم و ملک کے خیرخواہ ہوں تو اسلحہ کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملا عمر کی ایک آواز پر اسلحہ کو زیور سمجھنے والوں نے برضا رغبت اسلحہ جمع کرا دیا اور پوست جو ان کے روزگار کا وسیلہ تھا اس کی کاشت ترک کر دی۔ قرون اولیٰ کی بات کریں تو‘ حرمت کا حکم ہوا تو شراب کے رسیا¶ں نے سربازار شراب کے مٹکے توڑ ڈالے۔ ہمارے حکمران بھی ایسے کردار کا مظاہرہ کریں تو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔

مزیدخبریں