امریکہ کے صدارتی انتخابات میں موجودہ امریکی صدر باراک حسین اوباما منتخب ہو گئے۔ اپنے پہلے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں کے مسائل زیر بحث رہے اور ان کے حل کرنے کے وعدے بھی کئے گئے جن میں جنوبی ایشیا کے خطے کو بہت اہمیت دی گئی اور اس کو پرامن خطہ بنانے کیلئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر زور دیا جاتا رہا۔ اوباما نے اپنے ووٹرز سپورٹرز اور خاص کر جنوبی ایشیائی خطے کے عوام سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد ترجیحی بنیادوں پر اقوام متحدہ کی سب سے پرانی حل طلب قرارداد پر عمل کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ حل طلب مسائل کو پرامن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے اور خطے سے غربت، بیروزگاری اور صحت جیسے مسائل کو حل کرتے ہوئے اور بیجا انسانیت کے قتل کو روکا جا سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“۔ امریکہ نے اپنے اقدامات سے یہ ثابت کر دیا ہے۔ وہ اپنے چار سالہ دور حکومت میں اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے بھارت کی یکطرفہ مدد کرتے ہوئے اور اسے خطے میں اہم رول دینے کیلئے کوشاں رہے اور اس کو فوجی امداد کے ساتھ ساتھ اقتصادی امداد بھی مہیا کیں اور اس کے برعکس اپنے حلیف پاکستان کو، جو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتا رہا، اس کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کرتے ہوئے خطے میں طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کر دیا۔ موجودہ انتخابی مہم میں دونوں صدارتی امیدواروں نے پاکستان کی خطے میں اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار ضرور کیا لیکن مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تناﺅ کی سب سے بڑی وجہ ہے اس مسئلہ پر کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہ کرتے ہوئے بھارت کو خوش رکھنے کی کوشش کی گئی۔ دنیا کے محکوم عوام کیلئے ایک اچھی خبر ہے خاص کر کشمیری اور فلسطینی عوام کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے حق خودارادیت کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے پیش کئے گئے مسودہ قرارداد کی منظور دے دی ہے۔ ثاقفتی، انسانی اور سماجی امور کے متعلقہ قراراد متفقہ منظور کی ہے۔ اس مسودہ کو جنرل اسمبلی کے 75 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ مسودہ میں کہا گیا ہے کہ حق خودارادیت انسانی حقوق کی موثر ضمانت اور ان کے احترام کی بنیادی شرط ہے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا میں بھر حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والوں پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائے گی۔ اقوام متحدہ میں رکن مسلمان ملکوں کی تعداد 59 ہے۔ اگر یہ ممالک متحد ہو جائیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی عالمی دہشت گردی کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں اور ان کو نکیل بھی ڈال سکتے ہیں۔ امریکہ میں آنے والے سینڈی طوفان نے 4 کروڑ سے زائد امر یکی عوام کو متاثر کیا ہے اور دوسری طرف موجودہ انتخاب میں صدر اوباما کا دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب جیتنے پر انتہائی غم و غصہ اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اوباما کے اقتدار کے اگلے 4 سال مزید پریشانیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ امریکہ کی 50 ریاستوں کی عوام نے امریکہ سے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا ہے اور 7 ریاستوں نے مطلوبہ دستخطوں کی حد عبور کر لی ہے اس کو مکافات عمل کہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سینئر رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ اپنے نجی دورہ پر پاکستان آئے اور یہاں قیام کے دوران میاں محمد نواز شریف، سردار عبدالقیوم خان، وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری مجید اور دیگر رہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ لاہور میں قیام کے دوران میری بھی کئی ملاقاتیں ان سے ہوئیں۔ انہوں نے کشمیر کی موجودہ صورتحال اور جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سال کے آخر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما پاکستان کا تفصیلی دورہ کر رہے ہیں جس میں پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں گے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور اس کا حل تلاش کنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا کہ کشمیریوں نے گذشتہ مقبوضہ کشمیر کے الیکشن میں ووٹ بھی دیئے ہیں اور وہ ووٹ بھارت کے حق میں نہیں دیئے بلکہ اپنی سڑک، گلی تعمیر کرنے کیلئے دیئے ہیں۔
دوسری طرف بھارت کے اندر بھی کشمیر کے مسئلے پر بحث جاری ہے۔ دانشور طبقہ، سول سوسائٹی حتیٰ کہ سرکاری افسران بھی اس پر کھل کر باتیں کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی میں CRPF کے انسپکٹر جنرل پولیس جو مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں۔ انہوں نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری کبھی بھی ہمارے ساتھ نہ تھے نہ ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا جو خود بھارت کے مفاد میں ہے۔ ہندوستان کشمیر میں بیشمار ترغیبات سے کشمیریوں کی سوچ تبدیل کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں لگتا۔
ہندوستانی اس سوچ پر کارفرما ہیں کہ مسائل کی بات بھی کریں لیکن پاکستان کے ساتھ کاروبار کو ترجیح دی جانے کی اہمیت کو نظرانداز نہ کیا جائے کیونکہ بھارت کی شروع دن سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کشمیر اور دیگر متنازع مسائل کو چھوڑ کر بھارت سے تجارت، ثقافت، سیاحت پر پیش رفت کرے۔ (جاری)