سانحہ راولپنڈی محرکات،خطرات اور تدارک

Nov 22, 2013

رابعہ رحمن

10 محرم کو راولپنڈی میں رونما ہونیوالے سانحہ نے جہاں ایک طرف انتظامی غفلت اور نااہلی کا پول کھولا ہے تو دوسری طرف معاشرے میں موجود مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت،عدم برداشت اور فرقہ واریت کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر اسلامی دُنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی جارہی ہے جسکا واضح ثبوت عراق،شام،لبنان،بحرین اور پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ جھگڑے اور قتل و غارت کے واقعات ہیں۔ اگر یہ سازش کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات تباہ کُن ہوں گے۔ بد قسمتی سے مسلم اُمہ میں ایسی اجتماعی سوچ کا فقدان ہے جو مذہبی رواداری اوربرداشت کو اعتدال کی طرف مائل کر سکے۔ راولپنڈی کا حالیہ واقعہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہم آئے روز اندرونی و بیرونی سازشوں کا ذکر تو سُنتے رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے کسی سطح پر بھی اس کا تدارک کرنے کے لیے قابلِ عمل تجاویز سننے کو نہیں ملتیں۔ہر مسئلے کو سیاست اور مذہبی سوچ کی بھینٹ چڑھا دینا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ دوسروں کی غلطیاں نکالنا اور نصیحتیں دینا ہمارا معمول بن چکا ہے جبکہ اپنے آپ میں تبدیلی لا کے اجتماعی بہتری کے لیے کام کرنا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ایک اللہ اور رسولؐ کے ماننے والے دینِ اسلام کی اصلی روح کے مطابق قرآنِ پاک اور احادیث کی روشنی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ دین کو حسبِ منشا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دُنیا کو امن،بھائی چارے، سلامتی اور در گزر کا پیغام دینے والے رحمت العالمینؐ کے پیروکا اُن کی تعلیمات کے منافی آپس میں دست و گریباں ہیں اور سِتم ظریفی تو  یہ ہے کہ پھر بھی اپنے کیے پر شرمندہ نہیں۔ ہمارے اس طرزِ عمل نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو امن و سلامتی اور ہمیشہ زندہ رہنے والے دین ِ اسلام سے متنفر کر دیا ہے۔ ہمارا مذہب ایک مکمل ضابطہِ حیات ہوتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے بشرطیکہ کوئی حاصل کرنیوالا ہو۔ اس ساری صورت حال میں حکومت کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنمائوں کا کردار اور ذمہ داری انتہائی اہم ہے۔ اگر اس ذمہ داری کا احساس اب بھی نہ کیا گیا تو شاید یہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور تاریخ بھی ہمیں کبھی معاف نہ کرے۔ اس سلسلے میں مختلف ادوار میں ہونے والی کاوشیں دستاویزات کی صورت میں موجود ہیں جن پر من و عن عمل کر کے حالات میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں ایسی مذہبی شخصیات کا فقدان ہے جو کہ غیر متنازعہ ہونے کیساتھ ساتھ شعور اور بصیرت بھی رکھتے ہوں۔
مذہبی اُمور کے وفاقی وزیرِ مملکت پیر امین الحسنات ایک ایسی شخصیت ہیں جن کا کم و بیش تمام مذہبی رہنما احترام کرتے ہیں۔ اپنے خاندانی پسِ منظر ،ہمہ گیر شخصیت،عملی بصیرت اور فہم و فراست پر مبنی شخصیت کی بنیاد پر پیر امین الحسنات یقینی طور پر معاشرے میں فرقہ وارانہ اور بین المذاہب،ہم آہنگی اور رواداری پیدا کرنے کے لیے ایک موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ماضی میں پنجاب کی سطح پر متحدہ علماء بورڈ کے سر براہ کی حیثیت سے اُنہوں نے اس سلسلے میں کافی کام بھی کیا ہے۔ اگر وزیرِ اعظم ایک واضح مینڈیٹ اور ا ختیارات کے ساتھ اُنہیں یہ ذمہ داری سونپیں تویقینا وہ اس سلسلے میں انتہائی مثبت اوربے مثال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اپنے حلقہ انتخاب میں بے مثال پذیرائی،معتقدین کی کثیر تعداد، حکمران جماعت سے طویل وابستگی اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں عزت و تکریم پانے کی بنیاد پر یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ وزیرِ اعظم ملک کے وسیع تر مفاد میں اس سلسلے میں مخلصانہ اقدام اُٹھائیں گے۔ فرقہ وارانہ اور بین الاقوامی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے چند ایک قابلِ عمل تجاویز درج ذیل ہیں۔
1997 میں مولانا عبد الستار نیازی کی سر براہی میں قائم کمیٹی کی تجاویز کو عملی شکل دی جائے۔مختلف ادوار میں اتفاقِ رائے سے مرتب کیے گئے ضابطہ اخلاق کو جلد از جلد قانونی شکل دینے کا عمل شروع کیا  جائے تا کہ اُسے نافذالعمل کیا جا سکے۔ ملی یکجہتی کونسل کے فورم کو حکومتی سر پرستی میں متحرک اور موثر بنایا جائے۔ انتہا پسندانہ اور نفرت انگیز لِٹریچر اور تقاریر کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے مر تکب افراد کو قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ لوڈ سپیکر کے بلا جواز اور غیر قانونی استعمال کو روکنے کیلئے سخت قانون بنایا جائے۔  مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو چیک کرنے کے لیے انتظامی سطح پر نہ صرف موثر اقدامات کیے جائیں بلکہ مستقل بنیادوں پر مانیٹر بھی کیا جائے۔ وزارتِ مذہبی اُمور اور بین المذاہب ہم آہنگی کو صرف وزارتِ حج کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے تشکیل نو کرتے ہوئے زیادہ موثر اورمتحرک کردار سونپا جائے۔موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مجموعی ملکی صورت حال کے تناظر میں بر وقت اور سخت فیصلے کیے جائیں تا کہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ 

مزیدخبریں