چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سُپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے غیر قانونی طور پر معاف کئے گئے اربوں روپے کے قرضوں کی وصولی کے بارے میں جوڈیشل کمِشن کی رپورٹ کے باوجود وصولی نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہُوئے وفاقی حکومت کو حُکم دیا ہے کہ ’’وہ معاف کئے گئے قرضوں کی وصولی کے لئے 15دِن میں حِکمتِ عملی بنائے اور سیاسی اثر و رسوخ اور دیگر قانونی طریقوں سے قرضوں کی معافی کا دروازہ بند کر دِیا جائے۔‘‘ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا ۔’’ معاملہ عدالت میں آنے کے بعد بھی اربوں روپے کے قرضے معاف کئے گئے اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کوبھی قرضوں کی وصولی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’’مَیں نے وزارتِ خزانہ سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ قرضوں کی وصولی کا معاملہ " Cold Storage" میں ہے۔ وصولیوں کے لئے طریقۂ کار طے کرنے کے لئے مہلت دی جاے۔‘‘ عدالت نے15 دِن کی مہلت دے دی۔ عدالت کے عِلم میں یہ بات بھی لائی گئی کہ غیر قانونی قرضوں کی وصولی کے بارے میں جوڈیشل کمِشن نے 9 ماہ پہلے فروری میں رپورٹ پیش کی تھی۔ فروری میں جناب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے اور راجا پرویز اشرف وزیرِاعظم تھے۔ شاید یہ اُن صاحبان کی ’’حکمتِ عملی‘‘ ہی تھی کہ سیاسی اور غیر قانونی طور پر جاری کئے گئے قرضوں کی وصولی کی سفارشات پر مبنی رپورٹ کو، کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا جائے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اربابِ اختیار کی بھی اپنی ’’حکمتِ عملی‘‘ ہوتی ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک چلنے والی اِس ’’حکمتِ عملی‘‘ کے بارے میں غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (گیلانی) نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔
’’چُوں سُلطان ، یارِ دُزدے شُد
بشارت دہ تو رازداں را
نہ دستے و پائے مہ برند
نَے زنداں و نَے دار است‘‘
یعنی جان لینا چاہیے کہ جب سُلطان (ہر حکمران) خود چوروں کا یار دوست بن جائے تو اُس پر، چوروں کو یہ نوید سُنا دینا چاہیے کہ اب نہ تو کسی کے ہاتھ پائوں کٹیں گے، نہ ہی کوئی جیل میں ڈالا جائے گا اور نہ ہی پھانسی پر چڑھایا جائے گا۔ غوثِ اعظمؒ کا فرزند ہونے کا دعویٰ کرنے واے سیّد یوسف گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی مختلف معاملات کے بارے میں یہی ’’حکمتِ عملی‘‘ تھی۔ ترکیب ، چال اورترکیب کو ’’حِکمت‘‘ کہا جاتا ہے اور ’’عاقبت اندیشی‘‘ کو بھی، لیکن ہر حکمران جب خود کو ’’صاحبِ کمال‘‘ سمجھتا ہے پھر شاعر کو کہنا پڑتا ہے کہ ؎
’’جو صاحب ِ کمال تھے معدوم ہو گئے
دُنیا میں نامِ عاقبتِ کا ر رہ گیا‘‘
اکثر سیاستدانوں کا کمال یہی ہے کہ ’’مال مست‘‘ ہوتے ہیں، مختلف نظریات کے حامل سیاستدان جب کبھی اچانک مِلتے ہیں تو حضرت ِ داغؔ دہلوی کی زبان میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ ؎
’’مُدّت کے بعد، ہم سے مِلے ہو، کہو توکُچھ
پیدا کِیا ہے، اتنے دِنوں میں، کمال کیا؟‘‘
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے (قرضہ خوروں کی غیر موجودگی میں) اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’’ہم عوام کی لُوٹی ہوئی رقم پر چُپ نہیں رہیں گے، اگر ضرورت ہو تو حکومت عارضی قانون سازی بھی کرے!‘‘ میرے خیال میں جنابِ چیف جسٹس نے حکومت کی مجبوری کا خیال نہیں کِیا۔ عارضی یا مستقل قانون سازی کے لئے، پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت کا متقفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب مختلف سیاسی جماعتوں کے بعض معزز ارکان نے بھی، قرضے لے کر معاف کرائے ہُوں تو وہ خود اپنے خلاف قانون سازی کیوں ہونے دیں گے؟ اُستاد اسِیرؔ نے ’’زبانِ خلق‘‘ کی ترکیب کو کثرتِ رائے کے معنوں میں استعمال کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ؎
’’کسی کو حُکمِ خُدا اور رسولؐ یاد نہیں
زبانِ خلق تو، قانون ہے فرنگی کا‘‘
خاکسار تحریک کے بانی علّامہ عنایت اللہ خان المشرقی نے دسمبر1956ء میں باغ بیرون موچی دروازہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے تجویز پیش کی تھی کہ ’’عام انتخابات (آمدن کے لحاظ سے) طبقاتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔ 10ہزار تک آمدن والے لوگوں کو غیب طبقہ قرار دیا جائے۔ مزدور مزدور کو ووٹ دے، کارخانہ دار کارخانہ دار کو، کسان کسان کو اور جاگیردار جاگیردار کو۔‘‘ لیکن جنابِ علّامہ مشرقی کے اِس خیال کو عملی شکل کیسے دی جا سکتی تھی، جب تک پارلیمنٹ اِس کے مطابق قانون سازی نہ کرتی؟ بالائی طبقے کے ارکان ِ پارلیمنٹ نے زرعی آمدن پر ٹیکس کا اختیار بھی صوبائی حکومتوں کے سپرد کر کے اُسے ’’کولڈ سٹوریج‘‘ میں ڈال دیا اور ’’کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے علمبردار میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں بھی، یہ منصوبہ کولڈ سٹوریج (سرد خانہ) میں ہے۔ یہ سرد خانہ بھی خوب چیز ہے۔ سیاست میں زیادہ ترلوگ سرد و گرم چشیدہ اور گُرگِ باراں ہوتے ہیں۔ خُلفائے راشدین کو کسی بھی معاملے میں اِستثناء نہیں تھا، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر اگر قومی دولت لُوٹ کر بیرونی مُلکوں میں جمع کرا دے تو بڑی سے بڑی عدالت اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ ’’سُپریم‘‘ ہے۔ بنکوں کے ’’ظلِّ سبحانی‘‘ سٹیٹ بنک آف پاکستان سمیت ، سارے بنک قرض خوروں کے نوکر ہیں۔ پھر وہ سِینہ زوری کیوں نہ کریں؟ حضرت امیرؔ مینائی نے کہا تھا کہ
’’دِل اُڑا لے گئے ، دِکھلا کے وہ جوبن کا اُبھار
سِینہ زوری اِسے کہتے ہیں ،خیانت کیسی؟‘‘
قرضہ خوری ۔ ’’خیانت کیسی؟‘‘
Nov 22, 2013