اسلام آباد (آن لائن) قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکریٹریٹ ، کیپٹل ایڈمنسٹریشن ڈویلپمنٹ نے قرار دیا ہے کہ حکومت نے فروری میں اعلیٰ افسران کی ترقی و تنزلی کے بارے میں سپریم کورٹ کے دئیے گئے فیصلے کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا۔ بادی النظر میں تمام 601 اعلیٰ افسران کی ترقی رکنی چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو آئندہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے متعلق اٹارنی جنر ل آف پاکستان کی رائے اور سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت وزارت قانون کی رائے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے دوبارہ نظرثانی اور کل 601افسران میں سے صرف 81کے بارے میں عمل درآمد کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ سیکریٹری فیڈرل پبلک کمیشن نے بتایا کہ سیکشن افسران کی ترقی کے امتحان کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی تشکیل کر دہ کمیٹی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔ چیئرپرسن سینیٹر بیگم کلثوم پروین نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، لاء اینڈ جسٹس کے عدم رابطہ کی وجہ سے اعلیٰ افسران کی تظحیک کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیا گیا۔ من پسند افسران کو نوازنے کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصے پر عمل درآمد اور کچھ سے انکار کرکے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس میں ایک اعلیٰ افسر کی اے سی آر کے خلاف اپیل کی وجہ سے 80اعلیٰ افسران کی نوکری اور عزت کا تماشہ لگایا گیا۔ سینیٹر صغری ٰ امام نے تجویز کیا کہ سرکاری ملازمین کو جدید تعلیم اور تحقیق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے سینیٹر کامل علی آغا نے وزارت قانون اٹارنی جنرل اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اشتراک سے اعلیٰ افسران کے معاملے کو حل کرانے کیلئے کہا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور لاء ڈویژن میں بہتر رابطوں کی ضرورت پر زور دیا۔ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طر ف سے وزیراعظم کی طر ف سے منظور کردہ تجاویز کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔