ہنگو + اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے این این + بی بی سی) امریکہ نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ڈرون حملوں سے متعلق بیان کے اگلے ہی روز ڈرون حملوں کا دائرہ فاٹا سے خیبر پی کے کے بندوبستی علاقے تک بڑھاتے ہوئے ضلع ہنگو کی تحصیل ٹل کے مدرسے پر امریکی میزائلوں کی بارش کر دی جس سے طلبا اور اساتذہ سمیت 9 افراد جاںبحق اور 15 زخمی ہو گئے۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے اہم مشیر مولوی احمد جان اور چار دیگر سینئر طالبان کمانڈر بھی جاںبحق ہوئے ہیں۔ مدرسہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ ادھر پاکستان نے ڈرون حملے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے ان حملوں کو ایک بار پھر اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، حالیہ حملے سے ایک روز قبل ہی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کی علی الصبح امریکی ڈرون طیارے نے ٹل میں مدرسہ مکتبہ دارالعلوم پر پے در پے چار گائیڈڈ میزائل داغے۔ ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ حملے میں 8 طلبا اور معلمین جاںبحق اور 15 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبہ خیبر پی کے کے ترجمان شوکت یوسف زئی نے کہا کہ مدرسے میں طالب علم رہائش پذیر نہیں تھے اور حملے کے وقت بہت کم لوگ موجود تھے تاہم بعدازاں غیر ملکی میڈیا نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ڈرون حملے میں پانچ سینئر طالبان کمانڈروں سمیت افراد مارے گئے جن میں حقانی نیٹ ورک کے اہم مشیر مولوی احمد جان بھی شامل ہیں جبکہ دیگر چار افراد افغان باشندے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق صبح سے ہی امریکی ڈرون طیاروں کی نچلی پروازیں جاری تھیں جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا رہا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق مارے جانے والے دو اساتذہ احمد اللہ اور حماد اللہ کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے جبکہ حملے میں نشانہ بننے والے مدرسے کا تعلق بھی حقانی نیٹ ورک سے ہے، اس مدرسے کے قریب ہی لڑکیوں کا کالج اور ایک پاور ہاﺅس واقع ہے۔ امریکی ٹی وی نے پاکستانی سکیورٹی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ڈرون حملے میں جاںبحق ہونے والے 9 افراد میں پانچ اعلیٰ طالبان کمانڈر شامل ہیں ان میں حقانی نیٹ ورک کے نمایاں مشیر مولوی احمد جان، چار دیگر سینئر طالبان کمانڈر مولانا غازی مرجان، مولانا حمید اللہ، مولانا عبدالرحمن اور مولانا عبداللہ شامل ہیں۔ جاںبحق ہونے والوں میں شامل چار افراد پاکستانی نہیں ہیں۔ ایک سکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ پہلے ہم نے یہ سمجھا کہ خود کش بمبار نے مدرسے کو نشانہ بنایا لیکن بعد میں یہ تصدیق ہوئی کہ یہ ڈرون حملہ تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ 5 بج کر 40 منٹ پر مدرسے پر چار راکٹ داغے گئے۔ ایک عینی شاہد امجد حسین نے بتایا کہ حملے کے بعد درجنوں کی تعداد میں عسکریت پسند موقع پر پہنچ گئے جنہوں نے مقامی لوگوں کو وہاں نہیں جانے دیا اور مدرسے کی طرف جانے والے راستے بند کر دئیے۔ بعض اطلاعات کے مطابق زخمیوں کو طبی امداد کےلئے ٹل ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے نے حقانی نیٹ ورک کے ذرائع تصدیق کی کہ حملے میں مولوی احمد جان بھی مارا گیا جبکہ جس مدرسے کو نشانہ بنایا گیا وہ افغانستان میں نیٹو فورسز کے خلاف برسر پیکار عسکریت پسندوں کیلئے آرام گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک انٹیلی جنس اہلکار نے بتایا کہ جس مدرسے کو نشانہ بنایا گیا دو دن قبل سراج الدین حقانی بھی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دوسری جانب دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری کی جانب سے جاری بیان میں حالیہ ڈرون حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ ڈرون حملے فوری بندکئے جائیں۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے ہر فورم پر ڈرون حملوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف ہیں اور یہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سودمند نہیں ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ اور امریکہ کے ساتھ بھی ڈرون حملوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت اور انسانی حقوق کے خلاف ہیں یہ حملے پاکستان کی امن کوششوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہاہمی تعلقات میں بھی رکاوٹ کا باعث ہیں۔ ڈرون حملوں میں معصوم شہریوں کی جانیں جاتی ہیں۔ہنگو کے علاقے ٹل میں مدرسے پر ڈرون حملے میں مارے جانے والے ایک شخص کو ہنگو کے علاقے کاہی کچا پکا اور دوسرے کو کرم ایجنسی کے علاقے صدہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حملے میں مرنے والے دیگر افراد کی میتیں شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ منتقل کر دی گئی ہیں۔جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج حقانی بدھ کی رات ہنگو سے روانہ ہو گئے تھے۔ ذرائع حقانی نیٹ ورک کے مطابق سراج الدین حقانی پیر اور منگل کی رات مدرسے میں ہی تھے ڈرون حملے کا اصل ٹارگٹ جلال الدین حقانی کے بھائی اور بیٹے تھے۔ جلال الدین حقانی کے بھائی حاجی خلیل حقانی نے مدرسے میں آنا تھا۔ حاجی خلیل نے نصیرالدین حقانی کی فاتحہ کے باعث مدرسے کا دورہ ملتوی کیا۔ ڈرون حملے سے چند گھنٹے قبل سراج حقانی مدرسے میں موجود تھے۔
ڈرون حملہ