تحریکِ انصاف نے تیس نومبر کو اسلام آباد ڈی چوک پر بڑے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ جوں جوں تیس نومبر قریب آرہا ہے حکومت اور تحریکِ انصاف کے درمیان محاذ آرائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ تحریکِ انصاف نے طوفانی جلسے کر کے حکومت مخالف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کو اسلام آباد لانے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا تھا۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام آباد لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ ماحول میں کشیدگی کی وجہ شیخ رشید کے جذباتی بیانات بھی ہیں ۔ شیخ رشید صاحب بڑے سیاسی فنکار ہیں ۔ تانگہ پارٹی ہونے کے باوجود وہ تحریکِ انصاف کے اسٹیج اور لاکھوں کے اجتماع کو مفت میں خطاب کرتے ہیں۔ آج کل جلسوں میں فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے پہلی ہی گیند سے جارحانہ سٹروک کھیلتے ہیں ۔ اچھی اننگز کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور جس بال پر آئوٹ ہو جاتے ہیں اس کو تحریکِ انصاف کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومتی وزراء اُن کے مرچ مصالے والے بیانات کو تحریکِ انصاف کے خلاف استعمال کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ اُنکے کارکنوں نے جن کو ممی ڈیڈی اور برگر ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا انہوں نے پاکستان کے طویل ترین احتجاجی دھرنے اور احتجاج کر کے تحریکِ انصاف کو عوام میں ایک مقبول پارٹی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے لہذا وہ چاہتے ہیں اس طویل ترین سیاسی مشق کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلنا چاہیے ورنہ سیاسی طور پر تحریکِ انصاف کو نقصان ہوگا۔ اُدھرحکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے وزراء مشیران یہ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی نچلی قیادت اور کارکن تھک چکے ہیں اور ان میں وہ جوش و جذبہ نہیں رہا جو چودہ اگست کو دیکھنے میں آیا تھا۔ مذاکرات نہ کرنا اور جلسے و دھرنے کیلئے مختلف شرائط تحریکِ انصاف کے سامنے رکھنا حکومتی سوچ کی عکا س ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت تمام ایسے اقدامات کرے گی جس سے تحریک انصاف ایک بڑا شو کرنے میں کامیاب نہ ہو جس میں ٹرانسپوٹرز کو گاڑیاں دینے سے منا کرنا،پٹرول کی بندش اور دوسرے ایسے اقدامات جن سے میڈیا میں شور نہ پڑے شامل ہیں۔ 19نومبر کو اسلام آباد میں تیس نومبر کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونیوالے پنجاب کے اجلاس میں ایک کروڑ روپیہ چندہ جمع ہوا اور رہنمائوں اور کارکنوں کا جوش حکومتی توقعات کے برعکس تھا۔ کپتان نے تبدیلی کا رُخ سندھ کی طرف موڑا ہے۔پیپلز پارٹی کے قلعے لاڑکانہ میں بڑا جلسہ یقیناً پیپلز پارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ شاہ محمود قریشی کی دن رات کی محنت رنگ لائی ہے اور انہوں نے عمران خان کے معتمد خاص کی حیثیت سے اندرون سندھ میں تحریک انصاف کے لیے دروازہ کھولنے میں اہم کردار ادا کیاہے ۔پیپلز پارٹی کے اندر حکومت کے ساتھ تعاون پر شدید مزاحمت جنم لے گی جس طرح پیپلزپارٹی پنجاب سراپا احتجاج ہے۔ لگتا ہے آنیوالے دنوں میں 90کی دہائی کی سیاست کا ری پلے ہونیوالا ہے۔ حکومت کے تیور سخت نظر آرہے ہیں اور ممکن ہے آنیوالے دنوں میں گرفتاریوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ اگر عمران خان واقعی لاکھوں لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں تیس نومبر کو دھرنا دیتے ہیں تو یقینا حکومت کو عمران خان کے مطالبات ماننا پڑینگے۔ اور اگر حکومت ریاستی مشینری کے ذریعے Tactfullyہینڈل کرکے بڑے احتجاج کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریکِ انصاف کو اپنے مقاصد کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑیگا۔ حکومتی دعوے کے مطابق دھرنوں کی سیاست نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ تحریکِ انصاف کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم میں جو سیاسی شعور بیدار ہوا ہے وہ نئے پاکستان کی بنیاد ہے۔ حکمتِ عملی اور طریقہ کار سے اختلافی گنجائش کے باوجود اس سے انکار ممکن نہیں کہ تحریکِ انصاف کی جدوجہد کے نتیجے میں مسقبل کے انتخابات میں دھاندلی ممکن نہیں اور آنیوالے سیاسی منظر نامے میں مورثی سیاست کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنے پڑیگا۔ بقول شاہ محمود قریشی اگلا الیکشن اسٹیٹس کو اور اینٹی اسٹیٹس کو کے درمیان ہوگا۔