اگر صحافی سیاستدانوں کے خلاف لکھتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں، لوٹ مار میں شریک ہیں، ملک کا سرمایہ باہر لے گئے ہیں، ان کے پاس بھی کوئی ثبوت نہیں ہوتا، ثبوت تو ہماری عدالتوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح کے مقدموں کا کبھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ اب تک کسی کرپٹ سیاستدان اور کرپٹ صحافی کے خلاف کسی مقدمے کا نتیجہ نہیں نکلا۔ ’’ایم بی بی ایس، میاں بیوی بچوں سمیت‘‘ لوٹ مار میں شریک ہیں۔ عدالتوں کی طرف سے نااہل اور برطرف وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے لئے یہ عظیم جملہ کہا گیا۔ ’’ایم بی بی ایس‘‘ زرداری صاحب جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پارلمینٹرین اور جینوئن سیاستدان حافظ حسین احمد کے بقول مرد اول تھے تو پہلے 10 پرسنٹ پھر سینٹ پرسنٹ ہو گئے۔ یہ بھی الزامات ہی رہے۔ وہ دس بارہ سال جیل میں رہے وہاں سے نکلے تو صدر مشرف نے انہیں این آر او کے بعد صاف شفاف کر دیا۔ عدالتیں فیصلہ نہیں کریں گی تو کوئی فیصلہ تو ہو گا۔ ان کے ساتھ سینکڑوں دوسرے کرپٹ سیاستدان اور افسران بھی فری ہو گئے یعنی بری ہو گئے۔ پھر کرپشن میں وہ فری سٹائل ہو گئے اور خود کو بری امام کا مرید مشہور کر دیا بلکہ بدنام کر دیا۔
صحافی سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف بے دریغ لکھتے ہیں۔ کچھ بڑے صحافی اور کالم نگار غیراعلانیہ ثابت شدہ کامیاب کرپٹ سیاستدانوں کو صاف شفاف اور امانت دیانت کے چیف جسٹس سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں بلکہ لکھتے رہتے ہیں اور خوب فائدے اٹھاتے ہیں اور مزے کرتے ہیں۔ سیاسی اور صحافی مل کر مزے کر رہے ہیں۔
سب سیاستدان نجی محفلوں میں صحافیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے خود مجھ سے پیسے لئے تھے۔ انہوں نے عہدے لئے اب عمران خان نے کھلے عام کہہ دیا ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی بی کو 270 کروڑ روپے صحافیوں کے لئے دئیے اور انہوں نے پرویز رشید کی نگرانی میں بانٹے۔ یہ تو ہے کہ آئی بی کو 270 کروڑ دیے گئے جبکہ اس کا بجٹ بیس تیس کروڑ روپے ہے۔ وہاں سے پیسے کہاں گئے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ پرویز رشید اس طرح کا بیان دے کر حسب معمول حکومت کی بے عزتی کرا دیتے ہیں کہ یہ پیسے ہم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دیے تھے۔ تو پھر وہ دہشت گردوں میں تقسیم کئے گئے ہوں گے کہ ان کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے۔
عمران نے ہمیشہ صحافیوں کی تعریفیں کی ہیں۔ اب ایک مخصوص اخبار اور ٹی وی چینل نے عمران خان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے تو اسے بھی مذاق کی سوجھی ہے۔ اور انہوں نے بات کو خواہ مخواہ سنجیدہ بنا دیا ہے۔ آج کل اینکر پرسن کالم نگاروں اور کچھ صحافیوں کی اتنی تنخواہ ہے کہ کچھ سیاستدانوں نے اتنی رقم کبھی نہ دیکھی ہو گئی۔ لوٹ مار کرنے والوں کے لئے یہ رقم ہنسی مذاق سے زیادہ نہیں۔ اربوں کھربوں روپے کا لاکھوں سے کیا مقابلہ ہے مگر وہ حیران ہیں کہ پہلے اتنی تنخواہیں نہ ہوتی تھیں۔ اب صحافی ہم سیاستدانوں کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔
آج تک کوئی بھی کسی کی کرپشن ثابت نہیں کر سکا۔ بہرحال بغیر ثبوت کے عمران کی یہ بات بہت غلط ہے۔ غلط بیانی ہے۔ چاہئے تو یہ کہ آدمی کے جو دل میں آئے وہی کہے۔ عمران کے جو منہ میں آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔ اب اس نے کہا ہے کہ پریس کے لوگوں کو آفر کی گئی مگر انہوں نے پیسے قبول نہیں کئے۔ عمران کو یہ باتیں کون بتاتا ہے؟
پرویز رشید کی یہ بات اچھی ہے کہ عمران خود بھی ارب پتی ہے اور جو کچھ دھرنوں پر خرچ ہوا ہے اور جو کچھ جلسوں پر لگتا ہے وہ پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ عمران کا دوسرے کئی سیاستدانوں کی طرح کوئی کاروبار نہیں۔ وہ صرف کاروبار حکومت اور کاروبار سیاست سے ’’کام‘‘ چلاتے ہیں۔ کھرب پتی جہانگیر ترین کے طیارے میں عمران خان سفر کرتا ہے۔ عمران خان بھی طیارہ خرید سکتا ہے جو آدمی 300 کنال کے گھر بنی گالہ میں رہتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ وہ خود کہتا ہے کہ مجھے تو خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے۔ میں اپنے لئے کچھ بھی اور نہیں چاہتا۔ حیرت ہے کہ غریبوں کو کیوں کبھی بھی کچھ نہیں ملتا۔ کسی حکمران سیاست دان کے وعدوں کے باوجود کچھ بھی نہیں ملا۔ بھٹو صاحب عمران سے بہت بڑے سیاستدان تھے مگر وہ بھی لوگوں کو کچھ نہ دے سکے۔ عمران اس سے بھی زیادہ مایوس کرے گا۔ مجھے اندیشہ یہی ہے کہ پھر کیا بنے گا؟
’’صدر‘‘ زرداری نے کراچی میں ایک جلسے کے بعد کہا تھا کہ مجھے لگ پتہ گیا ہے۔ عمران اتنے جلسے کر رہا ہے تو اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کے پاس جو پیسہ ہے وہ کہاں سے آیا ہے؟ شہید بے نظیر بھٹو چلی گئی اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور وہ ’’صدر‘‘ زرداری سے بہت زیادہ امیر تھی۔
پریس سے متعلق لوگوں کے پاس بھی اپنی صفائی دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ وہ اس لحاظ سے دوسرے سیاستدانوں سے مختلف نہیں ہیں۔ صرف باتوں سے تردید کی جاتی ہے اور بس۔ جن صحافیوں کے پاس بڑے بڑے مناصب ہیں۔ انہیں کیا وہ میرٹ پر ملے ہیں۔ صحافیوں کے محلات فارم ہائوس اور کاروباری ادارے دیکھیں تو پھر کیسے کہیں گے کہ عمران بالکل غلط کہہ رہا ہے۔ بات کرنے کے لئے بھی ایک سلیقہ چاہئے۔
کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ جب پانی ہی گندہ ہو تو صاف مچھلیاں کیا کریں گی۔ چند کالی بھیڑیں سارے ریوڑ کو خراب کرتی ہیں۔ اس طرح ریوڑ تو خود کو مان لیا گیا ہے۔ اور اب سفید بھیڑوں اور کالی بھیڑوں میں فرق نہیں رہنے دیا گیا۔ ایک الزام میں ساری برادری کی ناک کاٹ لی جائے تو انعام پانے والے تو خوش ہوں گے۔ اور دوسرے لوگوں کے پاس مرہم پٹی کے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد عمران خان کے فی الحال پسندیدہ ہیں اور ابھی ان کو قبول ہیں۔ ان کی سربراہی میں کمشن بنایا جائے اور یہ تحقیقات کی جائیں کہ کس صحافی نے پیسے لئے۔ اس طرح فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک عام بات کر کے ساری برادری کو ذلیل کرنا اچھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے ممتاز کالم نگار اور اینکر پرسن طلعت حسین نے کہا کہ الزام عمران خان نے لگایا ہے تو اب ثبوت پیش کرنا بھی ان کا کام ہے۔ اس بات کو درمیان میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔
ایک نامعلوم صحافی نے کہا کہ میں نے تو 270 کروڑ روپے ایک ساتھ دیکھے بھی نہیں ہیں۔ اسے کہا گیا کہ تم ہمارے حق میں غیرمشروط لکھو۔ ہمارا ناحق بھی حق ہے اور حق وہی ہے جو صرف ہمارے حق میں ہے۔ تم لکھو، کئی دوسرے لکھتے ہیں، انہیں دیکھو وہ کیا سے کیا بن گئے ہیں۔