وفا کے نام سے گر لوگ آشنا ہوتے؟

قصہ تو ختم ہو گیا، پر باتیں ختم نہیں ہو رہیں۔ خلقت تو ہمیشہ سے ہی کہنے کو فسانے مانگے اور کچھ لوگ بھی ایسے مل جاتے ہیں جو زندگی کو قدم قدم پر افسانہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ 

مشہور مرد کی بیوی ہونا ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔ تزکیہ¿ نفس کی ایک منزل ہے۔ ہر بڑے آدمی کی بیوی اس منزل سے گزرتی ہے۔ بعض بیویاں اپنی ذات کی نفی میں اپنا وجود بھول جاتی ہیں۔ سایہ بن کر رہتی ہیں۔ اور چھایا بن کر دھوپ میں کام آتی ہیں۔ ایسی بیویاں بڑے مرد سے بڑی ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے کسی سیانے کو کہنا پڑا کہ کسی بڑے مرد کے پیچھے ہمیشہ کوئی بڑی عورت ہوتی ہے۔ عام طور پر مشہور اور مقتدر مردوں کی بیویاں ان کا سٹیٹس انجوائے کرتی ہیں۔ ان کی بیگم کہلوانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ مہمان خصوصی بنتی ہیں۔ فیتے کاٹتی ہیں۔ تقریبات میں بھی جاتی ہیں۔ مگر صرف اس حد تک، جس حد تک ان کا شوہر انہیں اجازت دیتا ہے۔ بڑے آدمیوں کی بیویوں کی قسمت میں بے نام کے دکھ بھی ہوتے ہیں۔ باشعور اور محبت کرنے والی بیویاں ان دکھوں سے پردہ نہیں اٹھاتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں اگر آگ رسوئی سے نکلے تو سارا گھر دھوئیں سے بھر جاتا ہے۔ اور اس دھوئیں کے اندر مکینوں کا دم گھٹ کے رہ جاتا ہے۔ایک بیوی جو بہت معمولی، عام سی، بیوقوف سی نظر آتی ہے ایک پورا زمانہ روک کے دہلیز کے اندر بیٹھی ہوتی ہے۔ زمانہ گھر کی عورت کی اجازت کے بغیر نہ دہلیز الانگ سکتا ہے نہ گھر کے اندر جھانک سکتا ہے۔ اس کا مرد چاہے شہرت اور کمال کی رعنائیوں میں گم ہو یا کج ادائیوں کا عادی بن چکا ہو۔ آخر کار اسی دہلیز کے اندر پناہ ڈھونڈنے آتا ہے جسے ایک وفاشعار اور سلیقہ مند بیوی نے اس کے لیے ڈھال بنا کے رکھا ہو۔
ہیں تو پرانے وقتوں کی باتیں اور کسی ناول کا پلاٹ لگتی ہیں یا کسی دردناک سوشل فلم کا سین لگتی ہیں۔ مگر ہے یہی سب سے بڑی حقیقت۔
موجودہ صدی کی اگر مثال دیں تو ہمارے سامنے بل کلنٹن کی مثال موجود ہے....
ایک ایسی سوسائٹی کی مثال جہاں زبانی کلامی طور پر بیوی کو برابری کا درجہ دے کر پہلو میں رکھا جاتا ہے۔ اور منظر کا حصہ ہوتی ہے۔ اس سوسائٹی میں بھی بڑا مرد پہلو میں بیٹھی عورت کی نظر چرا کر بددیانتی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ زمانے نے دیکھا کہ ہلیری کلنٹن نے زبان نہیں کھولی۔ دل تو سب بیویوں کا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ مغرب کی ہوں یا مشرق کی، خواب بھی ان کے مشترک ہوتے ہیں اور خواہشیں بھی ملکیت والی۔
گذشتہ صدی کی مثال دیں تو رتی جناح سے بڑی عورت پورے برصغیر میں نظر نہیں آتی۔ اس کی سوتن سیاست تھی کوئی اور نہیں تھی۔ وہ اپنے عشق کی معراج پر تھی۔ اس کا میکہ اس کا مخالف تھا۔ وہ اس مرد کو محبوب بنا بیٹھی تھی جو اپنی قوم کے عشق میں مبتلا تھا۔ وہ عظیم عورت تھی۔ سمجھ گئی تھی اس لیے خاموشی سے وفا کی رسم نبھائی اور شمع کی طرح جل کر بجھ گئی.... بڑے مرد کا ساتھ کبھی کبھی زندگی کی سب سے بڑی قربانی مانگتا ہے۔ سو اس کی بڑائی تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ اس کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔ اس پر چھاﺅں کرنی پڑتی ہے۔ دیر سویر اجالا برداشت کرنا پڑتا ہے۔ چوڑیوں چہاتیوں کی ایک عمر ہوتی ہے۔ بچے پیدا ہونے کے ساتھ ہی وہ عمر گزر جاتی ہے۔ گزری ہوئی عمر کو اگر کوئی واپس نہیں لا سکتا۔ ماضی کے چہرے کو اگر کوئی واپس نہیں دلا سکتا تو عمر رفتہ کے خواب کیوں سجانا چاہتا ہے۔ اگر سہارا بننا ہے تو سیڑھی کی طرح رہو.... زمین سے شروع ہو کر چھت تک جاتی ہے۔ زمین چھوئے بغیر آسمان نہیں ملتا۔
دوسری طرف ایک اور منظر نامہ ہے۔ مشہور اور مقتدر عورت کے شوہر کو بھی جبر کی ایک منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کتنے مرد اپنی بیوی کے سٹیٹس کو خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔ باہر مسکرا مسکرا سٹیج پر پھول بکھیرنے والی عورت کے ساتھ گھر کے اندر کیا ہوتا ہے....؟ کبھی کوئی نہیں جان سکا۔ دنیا کا کوئی مرد خوشی خوشی اپنی شناخت اپنی بیوی کے حوالے سے نہیں کرانا چاہتا۔ وہ یہ زہر کی گولی کیسے نگلتا ہے۔ یہ اس کا ظرف ہی جانتا ہے۔ کیونکہ بلند ظرف کے مرد بھی اس دنیا میں ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کو آگے بڑھایا اور خود پیچھے رہے۔ مگر یہ بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔
ہم یہاں مسز تھیچر کی مثال دے سکتے ہیں۔ وہ خاتون آئرن لیڈی کے نام سے مشہور تھی۔ مگر اس فولادی قوت ارادی والی عورت کے شوہر کو کبھی کسی نے منظر پر نہیں دیکھا۔ یہ اس کی عظمت تھی کہ وہ ایک طاقت بن کر اپنی بیوی کے کیریئر کو سہارا دیتا رہا۔ وہ اپنی بیوی کا منصب چھین سکتا تھا۔ اور نہیں تو اس کو ہر طرح بے سکون کر سکتا تھا۔ گھر میں سکھ اور سکون نہ ملے تو بیوی قومی سطح کے کام دلجمعی سے نہیں کر سکتی۔
یہ ایک بہت گہرا فلسفہ ہے۔ اس پر بہت زیادہ خیال آرائی نہیں ہو سکتی۔ صرف مثال ہی پیش کی جا سکتی ہی۔
یہاں ہم محترمہ بینظیر صاحبہ اور جناب آصف زرداری صاحب کی مثال دے سکتے ہیں۔ گھر آنگن سے باتیں باہر نکلنے لگی تھیں۔ مسابقت کی ایک دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ ہماری زندگی میں شاید یہ پہلی مثال ہے کہ بیوی کے توسط سے شوہر نے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہو اور جگہ بنا بھی لی ہو بلکہ پوری سیاسی جاگیر اپنا لی ہو.... وغیرہ وغیرہ! قدرت کے کام کبھی کوئی سمجھ نہیں سکا ہے۔
پہلی شادی کو لوگ تقدیر کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں مگر دوسری شادی ان کی رضا اور رغبت سے ہوتی ہے۔ دو ناتجربہ کار نادان بندے احمقانہ جواز پیش کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر دو جہاندیدہ تجربہ کار بندے بے تکے الزام لگاتے ہیں تو صرف تماشا بنتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔
ہمارے تجربہ سے بہت سی ایسی خواتین گزری ہیں جن کو جوانی میں طلاق کا سانحہ سہنا پڑا مگر انہوں نے اپنے بچوں کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کی۔ کیونکہ ان کو آفر بھی بچوں والے مردوں کی طرف سے ہی آ رہی تھی اور ان کے لاشعور میں غالباً وہ لطیفہ بھی رہتا تھا۔ جب ایسی ایک بیوی نے اپنے شوہر کو آواز دے کر کہا تھا.... دوڑ کر آﺅ دیکھو تمہارے اور میرے بچوں کو ہمارے بچے مار رہے ہیں۔
بہت سی ہماری بہو بیٹیاں جو والدین کے گھر میں کچن کے کاموں کو گندے کام کہتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اتنے سلیقے سے گھر بسا رہی ہیں کہ ان کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ہمارا گھر ہے ہم نہیں کام کریں گے تو کون کرے گا۔ دس نوکر بھی ہوں تو بیوی رسوئی میں کھڑی اچھی لگتی ہے۔ گھر رسوئی سے آباد ہوتا ہے۔ رسوئی عورت سے آباد ہوتی ہے۔ رسوئی وہ خزانہ ہے جس کی مالک صرف بیوی ہوتی ہے۔ یہی فرق ہوٹل اور گھر کا ہے۔ ہزاروں ہوٹل ریستوران ہونے کے باوجود مرد گھر کیوں بساتا ہے۔
آج ایک فیشن ایبل عورت پیدا ہو رہی ہے جو کچن کے کام کو گندہ کام کہتی ہے۔ مگر ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بیرا گیری کرنے اور ایک ایک گاہک کے آگے ٹرے سجا کے رکھنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ ثم العجب! چھوڑیے یہ اگلے وقتوں کی باتیں ہیں۔
کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی....
کوئی راز ڈھکا چھپا راز نہیں ہوتا۔ اچانک شادی کیوں ہو گئی۔ یکلخت طلاق کیوں ہو گئی؟ سب لوگ جانتے ہیں اگر احتراماً لوگوں نے زبانیں بند رکھی ہیں تو آپ بھی زبان بند رکھیں۔ ہوا تیز ہو تو کھڑکیاں دروازے بند کر لینے چاہئیں.... ورنہ گلی کا کوڑا کرکٹ بھی صحن میں جمع ہو جاتا ہے:
وفا کے نام سے گر لوگ آشنا ہوتے
زمانے بھر میں نہ پتھر کے یہ خدا ہوتے

ای پیپر دی نیشن