اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ سیکھ

ٹی وی آن کیا ایک منظر بار بار دہرایا جارہا تھا جس میں ایک خاتون مردوں کے ہجوم میں دھکم پیل کا شکار تھی اور اس پر شدید قسم کے غم و غصہ کا اظہار کر رہی تھی۔ اینکر پرسن کی آوازیں مسلسل سانحے کی وضاحت میں گونج رہی تھیں پانچ منٹ کے دوران یہ منظر پچاس مرتبہ دہرایا گیا اور اینکر پرسن نے بار بار یہ جملے دہرائے کہ ایک سیاسی جماعت کے جلسے میں ایک بار پھر خاتون سے بدتمیزی....مگر حقیقت یہ تھی کہ جس طرح وہ خاتون مردوں کے ہجوم میں گھس کر اپنے جوش اور جماعت سے وابستگی کا اظہار کر رہی تھی وہاں راستہ نہ ملنا یا دھکا لگ جانا جیسی بدتمیزی کا سو فیصد امکان ہوتا ہے۔ اس پر اس قدر واویلامچانا کسی طور مناسب نہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ جتنی بدتمیزی جلسے کے درمیان میں انتہائی رش کی وجہ سے ہوئی یا چلیں جان بوجھ کر بھی ہوئی اس سے کہیں زیادہ بدتمیزی ”میڈیا“ نے کی کہ ایک ایسے باعث شرمندگی منظر کو بار بار دکھایاگیا کہ جس پر ماسوائے افسوس اور دکھ کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دیکھا جائے تو اصل غلطی اس خاتون کی تھی کہ جس نے جان بوجھ کر ایسی بھیڑ میں گھسنا پسند کیا کہ جہاں اس سے کہیں زیادہ بدتمیزی کا امکان بھی موجود تھا۔ بزرگ فرماتے ہیں اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے کیا اس خاتون کی حمایت اور وابستی کا ثبوت یہ ہی تھا کہ وہ عین درمیان میں سیاسی رہنما کے پیچھے پیچھے سٹیج تک پہنچنے کی کوشش کرے جبکہ خواتین کےلئے الگ انتظام موجود تھا رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کردی۔ نجانے کیوں ہم کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اپنی اقدار‘ آداب و اخلاق‘ تہذیب و تمدن سب بھولتے جا رہے ہیںجس مغرب کی تقلید میں آج ہماری خواتین مذہب کی ہدایات اور مشرق کی روایات کو پس پشت ڈال رہی ہیں تو پھر اس قسم کے معاملات کی بھی عادی ہو جائیں کیونکہ یہ معاملات مغربی اور جدید اقدار کے مطابق کسی طور بدتمیزی میں شمار نہیں ہوتے تو پھر اس قدر اظہار برہمی کیوں۔ یہ بات تو طے ہے کہ....
اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سیکھو
سنگ مرمر پر چلو گے تو پھسل جا¶ گے
اور ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے ہم پھسلتے جا رہے ہیں مغرب پروری نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا لباس‘ ہماری زبان‘ ہماری ثقافت ہمارا طرز زندگی سب مغرب پسندی کی غمازی کر رہا ہے تعلیم عورت کا زیور ہے۔ نپولین نے ٹھیک کہا تھا ”تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا“ آج ہماری عورت بلاسوچے سمجھے غیر قوم کی تقلید میں مشغول ہے تو وہ ایک اچھی قوم کیا دے گی۔ آج ہماری عورت خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی کوشش میں جس ماڈرن ازم کو اپنائے ہوئے ہیں وہ اس کی عزت معاشرے میں بڑھانے کی بجائے کم کررہا ہے۔ آج تعلیم کا مقصد خود کو ماڈرنائزکرنا بنتا جارہا ہے نہ کہ سلیقہ مندی اور اخلاقیات سے مزین ہونا۔ جدید لباس پہننا‘ غیر کی زبان کو معاشرتی ضرورت کی بجائے خودپسندی کے اظہار کےلئے سیکھنا دوسروں کا انداز زندگی اپنانا آج ہمارا نصب العین ہے۔ اقبال فرماتے ہیں....
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
اس علم کو کہتے ہیں ارباب نظر موت
یہ خواتین جو جلسے جلوسوں اور مردوں کی بھیڑ میں جانا تحریک پاکستان میں شامل خواتین کی تقلید قرار دیتی ہیں۔ شاید نہیں جانتیں کہ وہ خواتین جس عظیم مقصد کےلئے گھروں سے نکلیں اور جلسے جلوسوں میں شامل ہوئیں ان کے مدنظر وہی مقصد رہا۔ آج جو اچھل کود اور بے جا بھیڑ میں شامل ہونے کا رحجان خواتین میں دکھائی دیتا ہے وہ ان کے اصلی مقصد سے بہت دور کی بات ہے آرائش و زیبائش اور نام نہاد آزادی کااظہار کون سے اہم مقصد کی غمازی کرتا ہے۔ خواتین کا احترام ہمارا مذہبی اور معاشرتی اصول ہے مگر ایسی جگہ جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہو خواتین کا موجود ہونا وہ بھی کسی مجبوری کے تحت نہیں محض شوق کے تحت تو ایسے میں اس اصول کی پابندی ایک مشکل امر ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بلاوجہ ایسی جگہ جانا خواتین کی حماقت ہے۔ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے جلسے میں جانا اور اپنے پسندیدہ لیڈر کی حمایت کا اظہار بطور آزاد ملک کے آزاد شہری خواتین کا بھی معاشرتی اور جمہوری حق ہے مگر اس بات کا درست تعین کرنابھی خواتین کی ذمہ داری ہے کہ انہیں یہ حق کن حدود میں رہتے ہوئے اور اخلاق و اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے کیسے استعمال کرنا ہے۔ یقیناً اس طرح ان کی عزت محفو ظ رہے گی اور وہ اپنے حق کا جائز اور بہترین استعمال بھی کر پائیں گی۔ میڈیا نے جو کمرشل ازم کی بنیاد پر طریقہ اپنایا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ سنسسنی پھیلانے اور نمبر بنانے کا جو مقابلہ جاری ہے اس کی وجہ سے نہ کسی کی عزت نفس محفوظ ہے اور نہ وقار۔ میڈیا کی آزادی جمہوریت کی علامت ہے مگر اس قدر آزادی اور بے باکی کسی طور بجا نہیں۔ ہر ادارے‘ ہر محکمے اور ہر شعبے میں حدود مقرر ہیں تو میڈیا اس قدر آزاد کیوں۔ میڈیا کےلئے بھی یقیناً حدود لاگو ہوتی ہیں بلکہ زیادہ ہوتی ہے کہ اس کا تعلق اور رابطہ معاشرے کے ہر فرد سے ہے اور یہ لامحدود بنیاد پر معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
آئیے اپنی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض سمجھنے کی کوشش کریں اپنی اصلاح ہم خود ہی کر سکتے ہیں۔ سرسید فرماتے ہیں”قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے“ ہم انفرادی طور پر درستی کی طرف مائل ہونگے تب ہی قوم کی اصلاح ممکن ہے ورنہ یاد رہے ....
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...