’’خبر‘‘ گرم ہے کہ وہ تین ’’سالہ مدت‘‘ پوری کر کے ’’ریٹائر‘‘ ہو رہے ہیں۔ وہ ’’ریٹائر‘‘ تو ہو رہے ہیں مگر انکے ہی ساتھ سیاسی اشرافیہ فیصلہ سازی کے ذریعے سیاسی و معاشی و دہشت گردی کے حوالے سے ’’مسائل‘‘ حل کرنے کا وابستہ پروگرام، جستجو، آرزو بھی تو ساتھ ہی ’’ریٹائر‘‘ ہو رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو فوراً چلے جانا چاہیے کہ انہوں نے روش سے ہٹ کر مدبر و حکمت کار کا راستہ اپنایا اور دور اندیش بن کر اقتدار پر قبضہ نہ کیا۔ انہیں جنرل جہانگیر کرامت، جنرل کیانی کی طرح ’’شب غم‘‘ گزار کے چلے جانا ہی چاہیے کہ قوم نے جنرلز کی اقتدار قبضہ پراسرار کہانی کے پیداکردہ مسائل، مصائب، مشکلات کے ’’زخم‘‘ جو دیکھے ہیں۔ ’’کمانڈو‘‘ جنرل اقتدار کی پیداکردہ سیاسی تباہی و بربادی کا جو ’’گند‘‘ این آر او کی غزل صورت میں ’’پایا‘‘ ہے اس بدترین جنرل اقتدار کے بدترین تجربے کے بعد اسے یقیناً خاموشی سے چلے جانا چاہیے تو انکے گھروں میں چراغاں ہونا چاہیے کہ شریف جنرلز کی لڑی سے وابستہ پھر ایک جنرل ’’تین سالہ مدت‘‘ یعنی ’’شب غم‘‘ گزار کر ’’باعزت‘‘ طور پر گھر واپسی پر آمادہ ہے۔ بدنصیب قوم کو نہیں ’’تین سالہ مدت‘‘ کیلئے چار ستارہ جنرل کو مقرر کرنے والوں کو بہت بہت مبارک ہو۔ ’’دوبئی‘‘ میں قیام پذیر ایک سابق صدر نے کس مسرت سے اعلان کیا ہے کہ وہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں واپس آرہے ہیں۔ جی ہاں اس لئے کہ وہ ’’شریف النفس‘‘ 29 نومبر کو دبائو ڈالنے والے خاکی منصب سے ریٹائر جو ہو رہے ہیں۔ اگر وہ ریٹائر نہ ہو رہے ہوں تو بھلا وہ کبھی یوں مسرت و شادمانی کے گیت گاتے؟ جو ’’افراد‘‘ یہ امید لے کر چراغ جلاتے رہے کہ جنرل کو اقتدار پر قبضہ نہیں کرنا چاہیے کہ کمانڈو جنرل کی طرح وہ بھی سیاسی و معاشی کرپشن کا۔ تعلیمی جعلی اسناد سیاست کا سرپرست اعلیٰ بھی ہوتا ہے تو شراب و شباب کا متوالا بھی۔ لہٰذا اس تجربے کے عبد ’’جنرل‘‘ کو صرف دبائو ڈال کر اصلاحی ایجنڈا قومی فرض سمجھ کر پورا کرنا چاہیے۔ ایسے احمقوں کی اصلاحی خواہش کس قدر زمینی حقیقت سے متصادم ثابت ہو رہی ہے۔ لہٰذا 29 نومبر کو ’’امید‘‘ یعنی اصلاح کی ’’امید‘‘ بھی تو ریٹائر ہو رہی ہے۔ کتنی خوشی و مسرت کی یہ بات ہے کہ فیصلہ ساز، دولت مند، ہر فن مولیٰ، بازو مروڑ قوت پھر فاتح ہے لیکن ذرا ٹھہر جائیں جن کا نادر خیال اور مسرت کا سامان صرف یہ ہے کہ ’’اس‘‘ کے 29 نومبر کو ’’چلے‘‘ جانے سے ان کی پریشانی ہمیشہ خاکی دبائو سے آزاد ہو جائے گی وہ سادہ لوح ہیں یا بہت بڑے شاطر بازو مروڑ فیصلہ ساز۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی جنگ صرف فوج لڑتی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جو جنگ اندرونی گند کو صاف کرنے کی شروع کر رکھی ہے ’’نیا‘‘ بھی اسی جگہ سے اس جنگ کو جاری رکھے گا۔ خواہ یہ جنگ بیرونی سرحدوں سے مسلط ہو رہی ہے یا سیاسی گند اشرافیہ کی پیداکردہ جنگ ہے۔ آنیوالے کو ’’جنرل‘‘ نہ سمجھنے والے خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ ’’مرد‘‘ نہیں بلکہ بازیچہ اطفال کا ’’اسیر محض‘‘ ہو گا۔ حضور فوج کا ادارہ تو موجود ہے یہ موجود بھی رہے گا۔ انشاء اللہ ملک کی حفاظت کیلئے۔ یہ حفاظت جتنی مشرقی سرحد سے ضروری ہے، جتنی مغربی سرحد سے ضروری ہے، جتنی واشنگٹن، لندن، دوبئی سے حکمران فیصلہ سازوں کے سیاسی و جمہوری وجود کے ذریعے پاکستان کو اندر سے تباہ کرنے، توڑنے، ناکام ریاست بنانے یا ثابت کرنیوالوں سے بھی تو فوج ہی کو نپٹنا ہو گا۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ خاکی وجود 29 نومبر کی شب غم کے بعد بھی اپنا اصلاحی ایجنڈا برقرار رکھے گا۔ بے شک سیاسی وجود کی شکنوں پر پسینہ کیوں نہ آتا رہے گا۔ لہٰذا ہمارا وجدان یہ ہے کہ 29 نومبر کے بعد بھی شرمندگی، عرق انفعال، نفسیاتی شکست کے تجربے سے سیاسی فیصلہ سازیوں کو دوچار رہنا ہو گا۔ جی ہاں ایسا ہو کر رہے گا خاص طور پر جب ریڈ کلف نامی برطانوی تقسیم ہند کام کو پورا کرنیوالے ’’بریف کیس‘‘ وصول کرتے پائے جارہے ہوں۔ ہاں یاد آیا کہ کوئٹہ سے بھی تو ایک جسٹس کہانی وابستہ تھی۔ اب پھر شور ہے کہ ایک سیاستدان کی حادثاتی (اتفاقی؟) ملاقات ایک جسٹس سے ہو گئی ہے۔ مگر یاد رکھیں پوری قوم بریف کیس و خاندانی روزی روٹی کے ارتقاء کو جہاں دیکھ رہی ہے اسے وہاں خاکی ادارہ بھی دیکھ رہا ہے۔ اور دونوں سے بہت بڑا ’’خدا‘‘ بھی دیکھ رہا ہے۔ اسکے گھر میں صرف دیر ہے اندھیر نہیں۔ اگر حدیث رسولؐ کو پسند کریں تو صحاح سند میں موجود مشہور فرمان رسولؐ یہ ہے ان اللہ یمھل ولا یھیمل (ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ صرف مہلت دیتے ہیں۔ معاف ہرگز نہیں کرتے‘‘۔ لہٰذا 29 نومبر کو ریٹائرمنٹ پر خوشیاں منانے والے اتنی زیادہ خوشی و مسرت میں مبتلا نہ ہوں کہ انہیں 29 نومبر کے بعد ’’آنے‘‘ والے کی وجہ سے جنرل راحیل شریف سے بھی کہیں زیادہ اخلاقی سخت ترین دبائو کے شکنجے میں قدرت الٰہی انہیں جکڑ دے کہ خدا کے ہاں دیر ہے۔ اندھیر نہیں ہرگز نہیں۔
قطری مالدار حکمران خاندان کے شہزادے کا شکریہ مگر اب وہ جرأت مند بنیں اور سپریم کورٹ میں وکلاء کے خون کو پانی پانی کرتی جرح کیلئے بھی تشریف لے آئیں۔ پوری پاکستانی قوم قطری شہزادے کی محبت شریف میں سپریم کورٹ حاضری کیلئے بھی شدید منتظر رہے گی اور ممنون و احسان مند بھی رہے گی۔