ارتکاز اختیارات جمہوریت کی نفی

Nov 22, 2016

ایم۔ اے سلہری

جمہوریت جمہور کے حقوق کی ضامن ہے مگر قانون کی حکمرانی شرط ہے اور قانون کی حکمرانی انصاف کی ضامن ہے مگر یہ اختیارات کی تقسیم کے بغیر ناممکن ہے ایک بامقصد جمہوری نظام میںعدلیہ اور مقننہ کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے میں آزاد ہوتے ہیں اور ان پر انتظامیہ اثرانداز نہیں ہو سکتی اگر مقننہ اور عدلیہ بھی انتظامیہ کے کنٹرول میں چلے جائیں تو انتظامی سربراہ کی شخصی آمریت یقینی امر ہے ایسی صورت میں قانون کی حکمرانی کا تصور بھی ممکن نہیں ہوتا اور یہ قانون کی حکمرانی ہی ہے جو حکمران کو عوامی حقوق کی پامالی سے روکنے کے علاوہ اسے عام آدمی کی طرح احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے ہمارے ہاں جو نظام رائج ہے اس میں وزیر اعظم انتظامیہ کا سربراہ ہے وہی مقننہ میں قائد ایوان ہے جس کے ایک اشارے پر مقننہ منٹوں میں قانون بنا بھی سکتی ہے التواء میں رکھ سکتی ہے حتیٰ کہ منسوخ بھی کر سکتی ہے۔ مقننہ ہمارے نظام میں ایسا ادارہ ہے جو مکمل طور پر انتظامی سربراہ کے کنٹرول میں ہے۔ ریاست کا یہ ستون کسی صورت میں انتظامیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون سازی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے لہٰذا قانون وہ بنے گا جو وزیراعظم چاہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں اس انتظامی نظام کو پارلیمانی نظام کس بنا پر کہا جاتا ہے پارلیمانی نظام تو تب ہے اگر پارلیمان قانون سازی میں انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہو، جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے عدلیہ کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو انتظامیہ نے براہ رست آرڈیننس کے ذریعے یا مقننہ سے قانون سازی کے ذریعے سونپ رکھے ہیں جو جوڈیشل کمیشن اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے سفارشات مرتب کرتا ہے وہ اچھی خاصی تعداد میں انتظامی عہدیداروں سے بھرا ہوا ہے اور اس حوالے سے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی مزید جانچ پڑتال کرتی ہے جو پوری کی پوری اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ہے۔کیا یہ سلسلہ عدلیہ کی آزادی کے آئینی تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ انتظامیہ کو اپنا کام کرنا چاہئیے اور دوسرے اداروں پر اپنے تسلط سے اجتناب کرتے ہوئے ملک و قوم کو اکیسویں صدی کے جدید تقاضوںسے ہمکنار ہونے کا موقع دینا چاہئیے اگر بغور دیکھا جائے تو آج جو ہمارے ہاں بحرانوں کا فوری حل دستیاب نہیں بلکہ ہمیں لازمی طور پر بحرانوں سے سمجھوتہ کر نا پڑتا ہے، اس کی بڑی وجہ ہمارا یہی نظام ہے جسے ہم پارلیمانی نظام کے نام سے پکارتے ہیں۔ سات مہینوں سے پاناما لیکس کا ایشو قوم کیلئے درد سر بنا ہوا ہے اور اب اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کے باوجود حکومتی عدم دلچسپی کی بنا پر پاناما بل پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی اگر مقننہ کے بس میں ہوتا تو مقننہ اب تک آف شور کمپنیوں کے حوالے سے قانون سازی کا کام مکمل کر چکی ہوتی اس کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہو چکی ہے اور قوم کی نظریں عدالت عظمٰی کی جانب مرکوز ہیں۔ اس میں تو کوئی ابہام نہیں کہ آف شور کمپنی بنانے کا عمومی مقصد ٹیکس بچانا اور دولت کے ذرائع کو خفیہ رکھنا ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ایسی دولت پر نہ تو ٹیکس دیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے ٹیکس گوشواروں یاانتخابی کاغذات میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ صرف دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں اور انہوں نے یہ دولت کہاں سے حاصل کی۔ اسی طرح نہ صرف قومی سلامتی کے ادارے بلکہ پوری قوم ڈان نیوز میں چھپنے والی قومی سلامتی کے منافی خبر پر تشویش میں مبتلاء ہے ۔ کوتاہی کی پاداش میں وفاقی وزیر پرویز رشید کو وزارت سے الگ کرنے کے باوجود حکومت خبر کی صحت سے انکار کر تے ہوئے اسے من گھڑت کہانی قرار دے چکی ہے مگر تا حال حکومت حقیقی ذمہ دار اشخاص کو بے نقاب کرنے میں ناکام ہے ۔اب حکومت نے جو تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے اس پر بھی بعض حلقے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اگر ملک میں ایسا نظام ہوتا جس میں اختیارات کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اداروں کی آزادی کی ضمانت ہوتی تو قومی سلامتی کے منافی من گھڑت خبر لگانے کے تمام ذمہ دار بے نقاب ہو چکے ہوتے۔ ادھر ای سی ایل سے نام نکال کر حکومت نے متعلقہ صحافی کو بیرون ملک جانے کا موقع بھی خود ہی فراہم کر دیا۔ مانتے ہیں صحافی کا استحقاق ہے اسے خبر کا ذریعہ نہیں پوچھا جا سکتا مگر حیرت یہ بھی ہے کہ کیا صحافی کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں کیا ملکی سلامتی کے منافی خبر لگانا بھی اس کا استحقاق ہے ۔ ایک ذمہ دارصحافی چھاپنے سے پہلے خبر کی تصدیق کرتا ہے اگر رپورٹر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر ے تو کیااخبار میں ایڈیٹوریل بورڈ کے اراکین میں سے کسی کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایسی خبر کا بر وقت نوٹس لیا جائے جو قومی سلامتی کے منافی ہو کوئی خبر ملک کی سلامتی سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی ملک ہے تو سب کچھ ہے۔ پی ایف یو جے کا بھی فرض بنتا ہے کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی حوصلہ شکنی کیلئے اپنی سطح پر سخت ا قدامات کرے۔

مزیدخبریں