جہانگیربدراورپیپلزپارٹی کی سیاست!

15دن امریکہ میں گزار کر دبئی پہنچا تو بے شمار پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی سابق وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات اور حیدر کھرل بھی دبئی آئے ہوئے تھے ان سے بھی تفصیلی گپ شپ ہوئی اور پاکستان کے سیاسی حالات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ 13 نومبر کی شام کو برج خلیفہ میںبیٹھے ہوئے تھے تو جہانگیر بدر کی بیماری کا ذکر ہوا اور ہم نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت یاب کرے مخدوم صالح حیات ایک تاریخ ہے انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے اپنی جوانی لگائی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ ابھی بھی جوان ہیں اور بڑی ہمت کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں انہوں نے آزاد الیکشن لڑ کر 90 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کئے بہر حال جہانگیر بدر کا ذکر ہو رہا تھا تو رات گئے میاں منیر ہانس نے یہ خبر سنا دی کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں میاں منیر ہانس بڑے باہمت اور صلاحیتوں والے انسان ہیں۔ مینجمنٹ میں اپنا کمال رکھتے ہیں انہوں نے جہانگیر بدر سے بہت کچھ سیکھا ہے ہم غمزدہ تھے اور جہانگیر بدر کی یاد تازہ کر رہے تھے ساری رات اسی خیال میں گزر گئی اور ماضی کی یادیں سامنے آتی رہیں۔ جہانگیر بدر کی سیاسی جدوجہد اور پیپلزپارٹی کیلئے خدمات بھول نہیں پائے اور معلوم نہیں کہ کب نیندآئی اور صبح اٹھ کر واپس آنے کی تیاری شروع کردی۔ 15 نومبر کو قُل تھے جس میں سابق وفاقی وزیروں خالد کھرل ، احمد مختار اور طاہر خلیق کے ہمراہ شریک ہوئے۔ دعائیہ تقریب میں چیئر مین سینٹ رضا ربانی سمیت بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، وفاقی وزراء اسحاق ڈار، حاصل بزنجو سمیت حکومتی افراد بھی تعزیت کیلئے گئے ۔ چیئر مین سینٹ اخلاقی روایت کے امین ہیں خالد کھرل کے ہمراہ گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے تو رضا ربانی پروٹوکول کیساتھ جا رہے تھے تو انہوں نے بزرگ راہنما خالد کھرل کو دیکھا تو گاڑی سے اتر کر آ گئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں یہ روایت کہاں رہی ہے جہانگیر بدر مرحوم مرنجامرنج لیڈر تھے۔ پارٹی تعصب سے بالاتر ہو کر لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے وہ لیڈروں میں لیڈر تھے تو کارکنوں میں کارکن ،ناشتے کی دعوت انکا پسندیدہ شوق ہوتا تھا۔ جہانگیر بدر(مرحوم)سے میرے بہت پرانے تعلقات تھے۔ انہوں نے 1970ئ، 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی کی صدارت کا الیکشن لڑا تھا۔ 1981-1982ء میں میں نے اینٹی جمعیت امیدواروں کے طور پر صدر کا الیکشن لڑا تھا ۔ میں نے تمام طلباء تنظیموں کو ساتھ ملا کر پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس الائنس کے نام سے اینٹی جمعیت اتحاد بنایا تھا۔ الیکشن میں ہم نے لاء کالج اور ہیلی کالج میں سولہ سال بعد جمعیت کو شکست دی ہمارے پینل کو سیاسی لیڈروں سمیت پورے لاہور کے طلباء لیڈروں کی سپورٹ حاصل تھی۔ جہانگیر بدر سے میرا تعلق اس وقت شروع ہوا تھا وہ جہاں بھی ہوتے تھے ہمارے لئے ووٹ مانگتے تھے یہ تعلق تو چلتا رہا لیکن جب میں نے 1996ء میں پیپلزپارٹی میں شمولیت کی تو یہ تعلق اور گہرا ہو گیا۔ اتفاق سے پیپلزپارٹی کی گروپنگ میں میرا تعلق ملک مشتاق اعوان ،عزیزالرحمٰن، آفتاب شیرپائو، خالد کھرل اور چوہدری احمد مختار سے ہو گیا جب کہ جہانگیر بدر کے دوستوں کا حلقہ مختلف تھا گروپ علیحدہ ہونے کے باوجود میں نے ان سے ذاتی تعلق ختم نہ کیا۔
جہانگیر بدر ایک جنگجو لیڈر تھے ہر وقت سیاست کرنا، منصوبہ بندی کرنا اور حرکت کرتے رہنا انکی زندگی کا حصہ تھا پیپلزپارٹی میں ان پر اتار چڑھائو آتا رہا۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر رہے پھر صدر بنے اور کئی سال مرکزی سیکریٹری جنرل بھی رہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی انکے پاس پارٹی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی تو وہ کتابیں لکھنے اور اخبارات میں کالم لکھنے لگ جاتے تھے۔ جہانگیر بدر کی زندگی کا میرے ساتھ یادگار واقع یہ ہے کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ان پر احتساب عدالت میں دو مقدمات چل رہے تھے مقدمات کی بحث مکمل ہو گئی اور فیصلہ کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا مجھے ایک دوست نے فون کیا کہ جہانگیر بدر نے اتنی جلدی مقدمہ کیوں مکمل ہونے دیا تو میں نے کہا کہ کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کو احتساب بیورو کے ذرائع سے اطلاع ملی ہے جس کیمطابق دس سال قید اور جرمانے کا حکم ہو گا میں نے اخلاقاََ بدرکو فون کیا کہ مقدمے کا کیا بنا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں چند دن میں فیصلہ ہو گا اور مجھے علم ہے کہ سزا ہو گی میں نے اس پر اخلاقاََ احتجاج کیا اور معصومیت سے کہا کہ پھر بھی راستہ نکالنا چاہئے اورکیس کو طویل کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتاتومیںنے عرض کیاکہ ہم مل کرکوئی راستہ نکالیں گے اگلے دن سے جہانگیر بدر نے مجھے فون کرنا شروع کر دیا کہ آئواس معاملے کو دیکھیں۔ سچ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کچھ دکھائی دے رہا تھا میں نے اپنے طور پر سینئر دوستوں سے مشورہ کرنا شروع کیا لیکن کچھ نہ مل سکا۔ لیکن میں نے حوصلہ نہ ہارا میں نے سردار لطیف کھوسہ سے بات کی ۔ اگلے دن جہانگیر بدر کے گھرگیا تو وہ ذکریا بٹ کے ہمراہ شاہ عالم مارکیٹ جا رہے تھے تو میں نے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں کیونکہ میں توآپ کو لینے آیا ہوں انہوں نے کہا کہ میں تو جیل جانے کی تیاری کر رہا ہوں ذکریا بٹ کے ساتھ شاہ عالم مارکیٹ سے روز مرہ کا سامان لینے جا رہا ہوں کیونکہ لمبی قید ہوگی اسی لئے چاہتا ہوں کہ خود خرید کر لائوں۔ میں نے زبردستی روکا اور انہیں ساتھ لیکر لطیف کھوسہ کے پاس چلا گیا میں نے لطیف کھوسہ کو مقدمے کی تفصیل بتائی جس میںسردار صاحب نے کہاکہ اگر یہ باتیں درست ہیں تو درخواست دی جا سکتی ہے۔ میں نے خدا حافظ کہا اور باہر آ گیا باہر آ کر بدر صاحب نے مجھے پوچھا کہ کیا ہوا تو میں نے بتایا کہ وکیل درخواست دینے پر تیار ہو گیا ہے انہوں نے کہا تو پھر کیا ہو گا تو میں نے کہا کہ یہ کافی ہے بہر حال دو دن بعد ہم احتساب کورٹ چلے گئے ہرطرف پولیس ہی پولیس تھی معلوم ہوا کہ احتساب والوں نے بدر کی سزا کا اعلان ہونے کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیںکسی کوکچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو گا ہم نے عدالت جا کر درخواست دی تو جج صاحب نے دو دن کیلئے نوٹس کر دیا اس طرح فیصلہ مئوخر ہو گیا اور پھر یہ مئوخر ہوتاگیا اور کئی سال بعد جہانگیر بدر مقدمے سے بری ہو گئے۔جہانگیر بدرکی تعزیت کیلئے پیپلزپارٹی کے لیڈر بڑے جوش وخروش کے ساتھ آ جا رہے ہیں لیکن مجھے افسوس یہ ہے کہ کئی ماہ سے بیمار لیڈرکی کسی نے خبرنہ لی ۔ جہانگیر بدر نے کافی ماہ اپنی بیماری سے لڑائی لڑی۔ افسوس یہ ہے کہ ہم زندہ کی خبر نہیں لیتے بلکہ اس کو مرنے دیتے ہیں جب وہ مر جاتاہے تو زور و شور کے ساتھ اس کے گھر چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں زندہ لوگوں کی قدرہونی چاہئے۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے قائدین اور قربانیاں دینے والوں کی قدرکرنی چاہئے انکو ردی کی ٹوکری میںنہیں پھینکنا چاہئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی ملک اور خصوصی طور پر پنجاب میں بُری حالت نے بھی جہانگیر بدر کو پریشان کیا ہوا تھا وہ مجھے کہتے تھے کہ جس پارٹی کیلئے میں نے خون دیا اور اپنی جوانی دی مجھے ڈوبتی ہوئی پارٹی اچھی نہیں لگتی۔ وہ پیپلزپارٹی کا تباہی کا صدمہ برداشت نہ کر سکے اور آخرکار اس دنیا سے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ انکوجوار رحمت میں جگہ دے۔ دعا ہے کہ پیپلزپارٹی کو زندہ رہنے کا جہانگیر بدرکا خواب پورا ہوکیونکہ غریبوں، لوئر مڈل کلاس اور چاروں صوبوں کی پارٹی کو ختم نہیں ہوناچاہئے۔

ای پیپر دی نیشن