اسلام آباد (آن لائن+ آئی این پی) پیپلز پارٹی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے لندن میں میرے پاس کوئی اپارٹمنٹ نہیں، سرے محل بھی اب نہیں ہے، ہمیں حکومت میں ناکردہ گناہ کی بھی سزا ملتی تھی۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا مشرف نے ووٹوں کیلئے بھیک مانگی مگر ہم نے اسے مکھی کی طرح باہر نکال دیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ایکسٹینشن دیکر خود کو اور پارلیمنٹ کو مضبوط کیا، اْس وقت گھر جانے والے کافی دوست ایسے ہوں گے جن کا مائنڈ سیٹ پرویز مشرف والا ہوگا۔ سیاست میں ٹائمنگز ہوتی ہیں، چاہتا تھا بلاول آگے آئے اور ذمہ داری اٹھائے۔ انہوں نے مزید کہا ڈاکٹر عاصم خاندانی شریف ہیں، انکا پڑھا لکھا خاندان ہے،وہ سافٹ ٹارگٹ تھے اس لئے نشانہ بن گئے، امید ہے ڈاکٹر عاصم عنقریب باہر آجائیں گے۔ انہوں نے کہا 6سال بعد دوبارہ گرفتار کیا تو مجھ پر بی ایم ڈبلیو کا کیس بنایا گیا، جیل میری دیکھی ہوئی ہے، یہ ہاتھ میرے آزمائے ہوئے ہیں، جو جیل سے گھبرا تے ہیں وہ سیاست کے بجائے کچھ اور کریں، مرتضیٰ بھٹو کے کیس میں بھی وعدہ معاف گواہ تھے، کیس میں باعزت بری ہوئے۔ انہوں نے بتایا چین بہت اچھا دوست ہے، چین سے اچھی قوم اور ملک نہیں ،حکومت کے دوران ہر ہفتے ایک چینی وفد مجھ سے ملاقات کیلئے آتا تھا، چینی وفد کو بتاتا تھا گوادر وسط چین سے کتنادور ہے، ہم نے 35 ملین ڈالر میں گوادر پورٹ چین کو دی۔ انہوں نے کہا بابر اعوان پروفیشنل وکیل ہیں جو فیس دے گا وہ اس کے وکیل بنیں گے جبکہ اعتزاز احسن اور عمران خان پرانے محلے دار ہیں۔ انہوں نے کہا ہم یہ نہیں کہہ رہے حنا ربانی کو وزیر خارجہ لگا لیں۔ انہوں نے کہا نواز شریف جلسے عمران خان کے بغض میں کرتے ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ کاروباری شخص ہیں، امریکیوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے لئے مرکزی حکومت کو سوچنا چاہئے، شہر قائد کیلیے مرکزی حکومت کو خصوصی فنڈ رکھنا ہوگا، اندرون سندھ پل بنے ہیں، سڑکیں بنی ہیں، بن بھی رہی ہیں۔ بلاول بھٹو کی شادی کے حوالے سے انہوں نے کہا اپنے بیٹے کیلیے دلہن ڈھونڈ رہاہوں، میں نے لیٹ شادی کی تھی بلاول کو کیسے کہہ دوں 28 کی عمر میں شادی کرلے۔ این این آئی کے مطابق انہوں نے کہا جیل ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ جیل سے نہیں گھبراتے‘ کوئی سیاستدان جیل جانے سے ڈرتا ہے تو پھر پاکستان میں نہیں بلکہ کسی اور ملک میں جاکر سیاست کرے‘ بلاول کے چار مطالبات نہایت درست ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف سے رابطہ صرف قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے ذریعے ہے۔