سات دسمبر 2010 کا تاریخی دن تھا جب پہلی بار ترک پارلیمنٹ سے پاکستان کے کسی وزیراعظم نے خطاب کیا تھا اور یہ اعزاز اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو حاصل ہوا تھا ، موجودہ ترک صدر طیب اردوآن اس وقت ترکی کے وزیراعظم تھے۔ میں ترک پارلیمنٹ کے اس تاریخی اجلاس میں موجود تھی ، چھ سال بعد 17 نومبر 2016کو میں پاکستانی پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس میں بھی موجود تھی جس سے طیب اردون ترک صدر کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے، ان چھ سال میں طیب اردوان ایک طاقتور اور مسلم دنیا کے مقبول ترین رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی ترکی میں گولن موومنٹ ان کے لیے ایک بڑی مخالف تحریک بن کر ابھری ہے ، یہی وجہ ہے کہ ترک صدر نے پاکستانی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں بھی بڑے تلخ لہجے میں گولن موومنٹ کا ذکر کیا اور اسے نہ صرف دنیا بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک خطرہ قرار دے دیا ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات مثالی ہیں اور یہ تعلقات صرف رسمی سرکاری سطح کے نہیں ہیں، 2010 میں ترکی کے دورے کے دوران مجھے خود ترک عوام کی پاکستان سے لازوال محبت کے جذبے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ ترک عوام پاکستان سے جس طرح محبت کا اظہار کرتے ہیں اسے میں کبھی نہیں بھول سکتی ۔ ترکی کی سلور مارکیٹ میں گھومتے ہوئے دکانداروں کو جب یہ علم ہوتا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ نہ صرف بڑی محبت سے پیش آتے بلکہ مجھے اپنی بہن کہتے اور چیزوں کی قیمتیں بھی انتہائی کم کر دیتے ، اسی طرح آیا صوفیہ ہو یا انقرہ میں اتا ترک کا مقبرہ ، جہاں بھی میں گئی ہر جگہ مجھے پاکستانی ہونے کی وجہ سے نہایت عزت و احترام دیا گیا ۔ میں یہ بات نہایت یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ پاکستانیوں کو دنیا کے کسی ملک میں ایسی عزت نہیں ملتی جو ترک عوام ہمیں دیتے ہیں ، اس عزت کی وجہ ترک عوام اور ہمارے درمیان ایک تاریخی تعلق ہے ، ترکی کے ساتھ پاکستان کے اس تعلق کی بنیاد پاکستان بننے سے بھی پہلے کی ہے ، 1919میں برصغیر پاک و ہند میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے تحریک خلافت چلائی گئی تھی اور ہرگلی کوچے میں ایک ہی نظم گونج رہی تھی ،
بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو
اس تحریک میں برصغیر کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا حتیٰ کہ خواتین نے اپنے زیور اتار کر عطیہ کر دیئے تھے ، اور یہ بات ترک عوام آج تک فراموش نہیں کر سکے ۔ ترکی اور پاکستان کے عوام کے درمیان یہ تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ اس دوران ترکی میں بھی کئی سول اور فوجی حکومتیں آئیں ، پاکستان بھی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کے دور سے گزرا مگر ان میں کوئی فرق نہ آیا کیونکہ یہ تعلقات حکومتوں کے رسمی اور وقتی مفادات سے بہت بلند ہیں ۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا اسی طرح 1954 میں قبرص کے معاملے پر اقوام متحدہ میں پاکستان ترکی کے ساتھ کھڑا رہا۔ 1965 کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کو فوجی ساز و سامان اور گولہ بارود فراہم کیا تھا ۔ پاکستان میں 2005 کے ہولناک زلزلے میں ترکی نے بڑھ چڑھ کر زلزلہ زدگان کی مدد کی تھی ، دونوں قوموں نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔
پاکستان کی طرح ترک قوم بھی کئی نشیب و فراز سے گزری ہے۔ ترکی کے بانی کمال اتاترک نے ترکی کو ایک ماڈرن اور سیکولر ملک بنانے کا فیصلہ کیا ، آزادی کے بعد ترکی سیکولر ازم کی راہ پر گامزن ہو گیا ، مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا ، ترک زبان کا رسم الخط عربی سے رومن کر دیا گیا ، حجاب پر پابندی لگا دی گئی، ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹ نے لے لی ، مسجدیں ویران ہو گئیں ، حتیٰ کہ ا ذان بھی عربی کے بجائے ترکی زبان میں دی جانے لگی، مگر اب رجب طیب کے دور میں ایک بار پھر ترک قوم مذہب کی جانب لوٹ رہی ہے ، اس کا مشاہدہ مجھے ترکی کے دورے میں ہوا مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں اور ہر مسجد میں بڑی تعداد میں خواتین بھی نماز ادا کرتی نظر آئیں ، خواتین کی بڑی تعداد حجاب پہنتی ہے ، ترکی ایک بار پھر تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے ، ترک صدر طیب اردوان بلا شبہ اس وقت ترکی کے مقبول ترین رہنما ہیں مگر ان کے کئی اقدامات کی ترکی میں مخالفت بھی کی جاتی ہے ، ان پر آمرانہ طرز عمل کا الزام لگایا جاتا ہے ، مخالفین ان پر سلطنت عثمانیہ کے شہنشاہوں کا سا انداز رکھنے کا لزام لگاتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے ایک ہزار کمروں کے سفید محل تعمیر کرنے پر بھی سخت تنقید کی گئی جس پر اکسٹھ کروڑ ڈالر لاگت آئی۔
رجب طیب کے دور حکومت میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں اور ان کے خلاف مقدمات دائر کیے گئے ہیں۔ ترک پولیس نے ترکی کے سب سے بڑے اخبار زمان کے خلاف کاروائی کی، میڈیا سے ان کی ناراضگی پاکستان کے حالیہ دورے میں بھی دکھائی دی جب انہوں نے بعض پاکستانی اخباروں میں اپنے خلاف لکھے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوآن نے پاکستان میں قائم پاک ترک اسکولوں کو بند کرنے کے لیے دباو ڈالا جس پر حکومت نے ان کے دورے سے صرف چوبیس گھنٹے قبل تمام ترک اساتذہ اور عملے کو بہتر گھنٹے کے اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا ، جو کہ کسی طرح بھی مناسب قدم نہیں کہا جا سکتا ، پاکستانی بچوں کو تعلیم دینے والے ان اساتذہ کو مجرموں کی طرح بہتر گھنٹوں میں گھر بار چھوڑ کر جانے کے اس حکم پر ہر جانب سے تنقید کی گئی ، یہ معاملہ یقینا بہتر انداز سے حل کیا جا سکتا تھا ،ترک صدر کا یہ دورہ پاکستان کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوا کیونکہ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بایئکاٹ کیا، جس سے عالمی سطح پر ایک اچھا پیغام نہیں گیا۔
اس وقت جب کہ پاکستان بلاشبہ سفارتی سطح پر تنہائی کا شکار ہے ایسے میں ترک صدر طیب اردوان نے کھل کر جس طرح مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف بھی پارلیمنٹ میں ترک صدر کے خطاب کے موقع پر موجود ہوتی۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر ملکی مفادات کے لیے انہیں پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔ بھارت اس وقت جس طرح پاکستان کی سرحدوں پر بار بار حملہ کر رہا ہے بلکہ اب تو بات سمندری حدود کے اندر جارحیت تک پہنچ چکی ہے ، اگر خدانخواستہ یہ جارحیت کھلی جنگ تک آ پہنچی تو کیا اس وقت بھی عمران خان اس سیاسی موقف پر قائم رہیں گے اور پارلیمنٹ کا بایئکاٹ جاری رکھیں گے ؟