ڈاکٹر عافیہ صدیقی پانچ ہزار صفحات پر مبنی کیس کی چھ ماہ ریسرچ کرنے والے بیرسٹر دائود غزنوی نے بالآخر Aafia Unheard کتاب لکھ ڈالی۔ نیویارک میرے گھر مجھے یہ کتاب تحفہ دینے آئے توہم نے عافیہ کی سزا اور قانونی زیادتیوں پر کھل کر اظہار خیال کیا۔دائود نے کتاب میں نیو یارک عدالت وکلا اور عافیہ کے مقدمہ سے متعلق گہری تحقیق کا ثبوت دیا ہے اور عافیہ کو کہیں سے بھی دہشت گرد یا قاتل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔دائود نے عافیہ صدیقی کے وکلاء سے رابطہ بھی کیا اور ان سے ذاتی طور پر معلومات حاصل کیں۔ سپریم کورٹ پاکستان میں بھی عافیہ کیس کے لئے پیٹشن دائر کی مگر سپریم کورٹ نے امریکی عدالت کا راستہ دکھا دیا۔دائود غزنوی عافیہ کے مقدمات کی کھوج میں نکل پڑے اور کتاب کی اشاعت کے بعد اب عافیہ کو وطن واپس لانے کی جدوجہد کا بیڑا اٹھا چکے ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی عدم دلچسپی اور سابق سفیر حسین حقانی کے دور میں اٹارنی حاصل کرنے کیلئے ڈھائی ملین ڈالر کی رقم جیسے تمام حقائق جمع کرنے کے بعد انہوں نے کتاب ترتیب دی ہے۔ وہ انہی حقائق کی بنیاد پر عافیہ کی رہائی کیلئے نہ صرف کیس لڑنا چاہتے ہیں بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی کتاب کے توسط سے دنیا ڈاکٹر عافیہ پر توڑے جانے والے مظالم و غلط سزا سے آگاہ ہوں اور عافیہ کی رہائی کیلئے آواز بلند کریں۔دائود غزنوی نے کہا کہ عافیہ صدیقی نے اپنی سزا سنائے جانے کے بعد عدالت میں کہا تھا کہ میری سزا پر کوئی مسلمان غیر مسلم کو میرے لئے نقصان نہ پہنچائے ، نہ میرے لئے کوئی لابی کرے۔یہ مجھ پر اللہ کی آزمائش ہے اور عافیہ نے قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی پہلے تحقیق و تصدیق کر لیا کرو۔ دائود نے کہا کہ عافیہ کے ان الفاظ کے بعد ہم لوگ عافیہ کے جرم کو بنا تحقیق و تصدیق کیوں کر تسلیم کر سکتے ہیں ؟ لہذا میں نے تفصیلی تحقیق کے بعد کتاب کی شکل دی اور آج اس حیثیت میں ہوں کہ امریکی تھنک ٹینک اور کانگریس میں عافیہ کیس کے حقائق پر بات کر سکوں۔ امریکیوں کو عافیہ کیس کے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عافیہ کا وکیل حکومت پاکستان اور سیکیورٹی اداروں سے بات کرنے کے لئے پاکستان بھی آنے کو تیار ہے۔امریکہ نے مشرف حکومت سے دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا اس کے عوض مشرف حکومت نے بھاری معاوضہ وصول کیا۔ عافیہ صدیقی بھی اسی شک کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔ غزنی جیل پہنچنے تک دہشت گردی کا جرم تو کہیں غائب ہو گیا اور امریکی اہلکاروں پر گولی چلانے کا جرم بنا دیا گیا۔بیرسٹر دائود غزنوی نے کیس کے کاغذات میں پڑھا کہ اہلکاروں پر فائرنگ کا ثبوت تو نیویارک عدالت کو پیش نہ کیا جا سکا لیکن اہلکاروں کی گواہی قبول کر لی گئی جبکہ عافیہ کے جسم پر بھی تین زخموں کے نشانات موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ظلم عافیہ پر کیا گیا۔دائود کے بقول ذاتی دفاع کے لئے فائرنگ تسلیم کر لی جائے تب بھی اس کی سزا بیس یا پچیس سال سزا بنتی ہے لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ دہشت گردی کے حوالے سے چونکہ زیادہ حساس ہو چکا ہے لہذا دہشت گردی کے شبہ میں پکڑے جانے والوں کے لئے سزائیں زیادہ کر دی گیئں۔ عافیہ بھی نائن الیون کے واقعہ کے رد عمل کا شکار ہو گئی اور چھیاسی برس کی سزا سنا دی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ عافیہ کو وطن لائے جانے کے لئے اب ایک ہی امید اور کوشش کی جا سکتی ہے کہ عافیہ کی صحت کے ایشو پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پیٹیشن امریکی اٹارنی جنرل تک پہنچائی جائے اور دوسری طرف پاکستانی حکومت امریکی حکومت سے بات کرے۔ ہمارے ایک سوال پر دائود غزنوی نے کہا کہ امریکہ کی طرح پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی عافیہ کے کیس کی حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ حقائق سامنے لائیں جائیں تو ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملکوں کو عافیہ کی پاکستان واپسی پر اعتراض نہیں ہو گا۔عافیہ صدیقی اگر امریکی جیل میں دم توڑ گیئں تو تاریخ میں ظلم کی داستان بن جائے گی لیکن انسانی ہمدردی اور طبی بنیادوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن بھیج دی جائے تو یہ معاملہ نہ صرف ٹھنڈا پڑ جائے گا بلکہ عافیہ ایشو کو کیش کرانے والے بھی آرام سے بیٹھ جائیں گے۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لیے امریکہ سے بیرون ملک فوجداری سزاؤں کے کنونشن 1993 کے تحت درخواست کی ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کی کوشش کی جا رہی ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح عمران حکومت کی طرف سے بھی کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جا سکا۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور حکومتی ادارے اگر دلچسپی لیں تو عافیہ صدیقی کی وطن واپسی ممکن ہی نہیں آسان بھی ہے۔ عافیہ کیس کو جان بوجھ کر معمہ بنایا گیا ہے۔عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں۔ سٹوڈنٹ ویزہ پر امریکہ گئی تھیں۔اس کاجرم القاعدہ سے تعلق تھاتو سزا غزنی قید خانے میں دو امریکی اہلکاروں پر گولی چلانے کے الزام پر دے دی گئی وہ بھی چھیالیس برس ؟ ‘‘۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں مبینہ طور پر اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی اجازت پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ائیربیس افغانستان لے جایا گیا تھا۔ یہاں ان پر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔اس کے بعد عافیہ کے خلاف ایک مشکوک قسم کا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے اور 2009ء میں انہیں امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے ان کی واپسی امریکی عدالت نے ہی نہیں پاکستانی اداروں نے بھی مشکل بنا رکھی ہے۔