شاطرانہ سیاسی چالیں

Nov 22, 2019

سکندر خان بلوچ

کہتے ہیں فوجی جنرل اور سیاستدان دونوں کے کردار ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے میدان کے شاہ سوار ہیں لیکن دونوں کو اپنے اپنے مخالف سے جنگ لڑ کر ہی فتح حاصل کرنی پڑتی ہے۔مخالف کو شکست دینے کے لئے دونوں اپنی اپنی چالیں چلتے ہیں ۔ایک ہتھیاروں سے لڑتا ہے اور دوسرا منفی بیانات یا خفیہ کاروائیوں سے۔ فوجی جنرل کی سب سے اہم جنگی چال دشمن کے اعصابی مرکز پر حملہ کر کے اپنے مخالف کو مفلوج کرنا ہوتا ہے۔یہی کام ایک سیاستدان بھی کرتا ہے ۔گو دونوں کے اعصابی مراکز علیحٰدہ علیٰحدہ ہوتے ہیں۔ فوجی جرنیل کے لئے اعصابی مرکز دشمن کے کمانڈ سنٹرز اورایمونیشن ڈپوز ہوتے ہیں جبکہ سیاستدان کے لئے اعصابی مرکز اپنے مخالف کی معاشی پالیسیاں ہیں۔جب کسی صاحب اقتدار یا سیاسی لیڈر کی معاشی پالیسیاں ناکام ہوتی ہیں تو اسکا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ وہ ذاتی طور پر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو معاشی ناکامی اسکی پبلک پاپولیڑیٹی ختم کر دیتی ہے جیسے آج کل ہم بھگت رہے ہیں ۔قومی ترقی اور قومی طاقت مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ موجودہ دور میں روس ایک طاقتور ملک تھا۔ اس کے پاس فوج اور فوجی سازو سامان کی بھی کمی نہ تھی مگر جب معیشت دگر گوں ہوئی تو روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔طاقتور فوج بھی اسے نہ بچا سکی اگر ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو ہماری سب سے بڑی کمزوری معاشی نا اہلی ہے ۔اگر ہماری معیشت ٹھیک ہوتی تو لوگوں کو روزگار ملتا اور مشرقی پاکستان ہم سے کبھی جدا نہ ہوتا۔
ہمارا اسوقت بھی سب سے بڑا مسئلہ کمزور بلکہ زبوں حال معیشت ہے۔ اسی لئے ملک کے مختلف کونوں سے آزادی کی مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔یہ آوازیں بندوق کے زور سے ختم نہیں ہو سکتیں۔ ایک مضبوط معیشت ہی ایسی آوازیں ختم کر سکتی ہے جہاں لوگوں کو روزگار ملے۔زندگی آسودہ حال ہو ۔معیشت ہمار ی فوجی طاقت بھی بڑھا سکتی ہے ورنہ ہم ہتھیاروں کے لئے باقی دنیا کے محتاج رہیں گے جو ہمیں بلیک میل بھی کریں گے اور ہماری سلامتی کا مذاق بھی اڑائیں گے ۔ہماری بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے لیڈروں نے معیشت بہتر کرنے کی طرف اتنی توجہ ہی نہیں دی جتنی ذاتی مفادات حاصل کرنے کی طرف دی ہے ۔بیرونی ممالک سے قرضے لے لے کر ملک چلاتے رہے ہیں اور ترقی کے جھوٹے دعووں سے عوام کو بے وقوف بنائے رکھا۔ سابقہ حکومت نے خزانہ اس حد تک خالی کیا کہ کوئی اور حکومت چلا ہی نہ سکے۔ ان کی بد قسمتی کہ انکی مخالف پارٹی اقتدار میں آگئی جس نے سابقہ حکمرانوں کے احتساب کا نعرہ بلند کیا اور کرپشن کے کئی کیسز کھلنے شروع ہو گئے۔سابقہ حکمران چونکہ ایک دوسرے کی کرپشن سے واقف تھے انہیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں لوٹی ہوئی دولت زبردستی ہم سے چھین نہ لی جائے۔لہٰذا اپنی اپنی دولت بچانے کے لئے پہلی چال تو یہ چلی کہ آپس کے تمام اختلافات پسِ پشت ڈال کر ایک ہو گئے اور حکومت کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔احتساب کو ذاتی عناد اور ذاتی انتقام کا نام دیا اور سب بیمار ہو کر ہسپتال جا لیٹے۔ 
اپوزیشن پارٹیوں نے مل کر حکمرانوں کے اعصابی مرکز کو ہدف بنایا اور وہ تھی معیشت ۔انہیں پتہ تھا کہ پاکستان قرض میں ڈوبا ہوا ہے جس کے ذمہ دار وہ خود تھے اور خزانہ وہ پہلے ہی خالی کر چکے تھے ۔لہٰذا معیشت کو ٹارگٹ کرنا سب سے آسان کاروائی تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ حکومت خزانے کے بغیر آگے نہیں چل سکتی اور اگر معیشت ناکام ہو گئی تو ملک میں بے روزگاری بڑھے گی۔مہنگائی لوگوں کی زندگی جہنم بنا دے گی اور یوں عوام حکومت کے خلاف ہو جائیں گے اور حکومت خود گر جائے گی یا اسے گرانا آسان ہو جائیگا۔ انہوں نے ایک مضبوط منصوبہ بندی سے حکومت کو بے بس کر دیا۔حکومت کھل کر کام ہی نہ کر سکی ۔ملک میں امن وامان کی حالت مخدوش ہو گئی اور مہنگائی بڑھنے لگی۔ جب اپوزیشن کو اپنی منصوبہ بندی کامیاب ہوتی نظر آئی تو انہوں نے اگلی چال چلی ۔کچھ خفیہ افواہوں کے مطابق ان لوگوں نے بازار سے ڈالرزخرید کر اپنے پاس جمع کر لئے۔ بازار سے ڈالرز غائب ہو گئے جس کا پریشان کن نتیجہ سامنے آیا ۔ڈالر کی قیمت یکدم اوپر چلی گئی ۔روپے کی حیثیت بے وقعت ہو گئی ۔غیر ملکی قرضے ڈبل ہو گئے ۔بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے اور مہنگائی عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئی۔بعض چیزیں تو مارکیٹ سے غائب ہی ہو گئیں ۔ٹماٹر جیسی ادنیٰ سبزی پانچ سو روپے کلو تک چلی گئی ۔جب اپوزیشن اپنی گیم کامیابی سے آگے بڑھا رہی تھی تو ایک اور افتادہ نازل ہوئی پلوامہ کا واقعہ رونما ہو گیا ۔بھارت نے فوری طور پر الزام پاکستان پر لگا دیا۔بھارت میں انتخابات ہونے والے تھے ۔نریندر مودی کو اپنے آپ کو ایک عظیم اور دلیر لیڈر ثابت کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس نے عوام میں اپنی طاقت ثابت کرنے کے لئے پاکستان پر ہوائی حملہ کر دیا۔ گو جلد ہی بھارت کو اپنی بے وقوفی کا جواب مل گیا مگر حالات جنگ کی طرف بڑھنے شروع ہو گئے۔ اس عرصے میں اپوزیشن نے حکومت پر اپنا پریشر جاری رکھا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے بہت دانائی سے حالات کا مقابلہ کیا اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
مودی کی شاندار کامیابی نے اسے مزید متکبر اور دلیر لیڈر بنا دیا۔ اس نے بغیر پاکستان کی پرواہ کئے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا۔ پاکستان کے اندرونی حالات تکلیف دہ تھے ۔لہٰذا پاکستان سوا شوروغل کے کچھ بھی نہ کر سکا ۔اپوزیشن کو الزام تراشی اور حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا نادر موقعہ مل گیا۔انہوں نے فوری عمران خان پر الزام لگا دیا کہ اس نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے۔ گو زیادہ لوگوں نے اس الزام تراشی پر یقین نہیں کیا لیکن اپوزیشن کا مقصد پورا ہو گیا۔ اس سے ملک میں بے چینی بڑھی جس سے معیشت پر مزید بوجھ بڑھا اور مہنگائی مزید بڑھی۔ان پریشان کن حالات میں ملکی معیشت پر ایک اور کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کام کے لئے مولانا صاحب کو آگے لایا گیا۔حکمرانوں کی بد قسمتی کہ مولانا صاحب اس دفعہ اپنے حلقے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔یہ پہلی حکومت ہے جس میں مولانا صاحب اقتدار سے باہر تھے ورنہ اس سے پہلے وہ ہر حکومت میں شامل رہے ہیں چاہے اقتدار کسی بھی پارٹی کا ہو۔۔لہٰذا مولانا صاحب نے آزادی مارچ کے نام پرایک بہت بڑا ہجوم لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے اور وزیر اعظم سے استعفٰی مانگا۔حکومت کو غیر قانونی اور دھاندلی کی پیداوار قرار دیا۔تمام اپوزیشن پارٹیوں نے مولانا صاحب کا دل بڑھایا۔مولانا کے اس دھرنے سے ملک کو کافی نقصان پہنچا۔ پاکستان پر گرے لسٹ کی پابندی اگلے سال تک بڑھ گئی ۔مودی حکومت نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنے لیفٹیننٹ گورنرز مقرر کر دئیے ۔ساتھ ہی اپنا نیا نقشہ جاری کر دیا جس میں آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان بھی شامل ہیں۔ مولانا صاحب کے دھرنے نے حکومت کو ہلا دیا اور حکومت اپنی پریشانی میں مودی کی کاروائیوں کا جواب بھی نہیں دے سکی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ دھرنا تقریباً 2ہفتے جاری رہا۔ حکومت کے کام رکے رہے۔ عوام بھی پریشان رہے اور اربوں روپے سیکورٹی پر خرچ ہو گئے ۔مولانا صاحب جب اسلام آباد میں کامیاب نہ ہوئے توپھر پلان بی کے تحت ملک کی شاہراہیں بند کر دیں۔لوگوں کے آمدورفت اور کاروبار رک گئے ہیں۔ سیکورٹی کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے اور ملکی معیشت مزید تباہی کی طرف جا رہی ہے۔یاد رہے کہ دھرنے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھ گئی ہے اور مزید بھی بڑھنے کا امکان ہے۔ اپوزیشن کا مقصد پورا ہو رہا ہے مگر پاکستان کے نقصان کی پرواہ کون کرے گا؟   
٭…٭…٭

مزیدخبریں