بڑھتی کشیدگی، حل کیا ہے …؟؟ 

تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے کرونا وائرس کے پھیلنے کی وارننگز کے باوجود اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف جلسے جلوسوں سے باز نہیں آ رہیں۔ پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ آج 22 نومبر کو پشاور میں ہو گا جس کیلئے تمام تر تیاریاں جاری ہیں۔ صوبائی حکومت کی بار بار وارننگ کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت ہر صورت جلسہ کرنے پر مُصر ہے۔ لگتا یہ ہے کہ کرونا وائرس کی پروا کئے بغیر اپوزیشن ہر صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر تُلی ہوئی ہے۔ 
اس کے باوجود کہ حکومت کی طرف سے  اپوزیشن کیساتھ مذاکرات کی پیشکش بھی سامنے آ چکی ہے۔ اپوزیشن اس پیشکش کو کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ  بدعنوانی اور احتساب کے کیسز میں کوئی این آر او نہیں دیا جائیگا۔ دوسرے الفاظ میں اپوزیشن کے سرکردہ لیڈروں کے خلاف نیب کے جو مقدمات ہیں ان پر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ نہ کوئی قد آور شخصیت موجود ہے جو دونوں فریقین کو مذاکرات پر آمادہ کر لے اور بات چیت کا کوئی فریم ورک تیار کرے۔ 1977 میں جب 9 جماعتی قومی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کیخلاف انتخابات میں دھاندلی پر تحریک چلائی تھی تو مسٹر بھٹو نے آزاد کشمیر کے سابق صدر اور مسلم کانفرنس کے لیڈر سردار عبدالقیوم خان کو پلندری جیل سے رہائی دے کر ان کے یعنی مسٹر بھٹو اور ان کی اپوزیشن کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ بھٹو صاحب نے 1974 میں سردار عبدالقیوم خان کیخلاف عدم اعتماد کر کے انھیں صدارت سے محروم کیا اور پھر انھیں پلندری جیل میں ڈال دیا، لیکن جب قومی بحران پیدا ہو تو انھوں نے اپنے ایک سیاسی مخالف سے درخواست کی کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار کریں۔ سردار صاحب نے پی این اے کی لیڈرشپ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو مشترکہ مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ 
اس وقت ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ تصادم اور محاذ آرائی کی طرف معاملات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کو اعتماد ہے کہ جو کچھ وہ کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گی۔ اگرچہ اس حکومت کے خاتمے کیلئے کوئی آئینی یا قانونی راستہ موجود نہیں ہے،پارلیمنٹ کے ذریعے عدم اعتماد کر کے حکومت کو فارغ کیا جا سکتا ہے لیکن اس آپشن پر اپوزیشن میں نہ اتفاق رائے موجود ہے اور نہ ہی اس پر کام ہو رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ سیاسی تصادم کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جانا ہوتا ہے۔ بظاہر اس کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ دونوں طرف سے لچک کا مظاہرہ بھی نہیں ہو رہا۔ ان حالات میں جبکہ پاکستان کی معیشت کئی وجوہ کی بنا پر کمزور ہے اور اسے استحکام کے دورانیہ کی ضرورت ہے، لگتا ہے کہ معیشت کا کسی کو خیال نہیں۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی سے ملک کو نقصان ہو گا۔ معیشت اس کا سب سے بڑا شکار ہو گی۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کا کوئی فریم ورک بن جائے اور معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہو پائیں۔ ماضی میں بھی پاکستان میں ایسا ہوتا رہا ہے، احتجاجی تحاریک کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور ان مذاکرات کے نتیجے میں مسائل کا حل تلاش ہوتا رہا۔ یہ بھی بڑی بد قسمتی رہی ہے کہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونیوالے ایجی ٹیشن کے نتیجے میں جو معاملات حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے ہوئے تھے، ان پر عمل درآمد نہ ہوا اور فوج نے براہ راست ٹیک اوور کر لیا۔ 1968 میں ایوب اور انکی اپوزیشن کے مذاکرات ہوئے، دوبارہ الیکشنز کے اوپر اتفاق رائے ہوا۔ ون یونٹ کے خاتمہ پر بھی اتفاق ہوا لیکن جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء لگا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے درمیان بھی نئے انتخابات پر قریباً اتفاق ہو گیا تھا کہ چار جولائی کی رات کو فوج نے مارشل لاء لگا دیا۔ اب بظاہر تو ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی لیکن معاملات اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال میں خلل پڑے ، معیشت میں مزید بگاڑ پیدا ہو اور پاکستان اپنے قرضے اتارنے کی پوزیشن میں نہ رہے، ایکسپورٹس گرنے لگیں اور اندرونی خلفشار حد سے بڑھ جائے تو کوئی نہ کوئی حل تو تلاش کرنا پڑے گا، یہ حل کیا ہو گا، اس کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن