لاہور  کا ایک مسئلہ

Nov 22, 2020

بیدار سرمدی

ضلعی حکومتوں کا جمہوری نظام تعطل کا شکار ہے ۔ حکومت نے پہلی منتخب باڈیاں انتظامی معاملات میں بہتری لانے کیلئے معطل کر دی تھیں اور نیا بلدیاتی نظام لانے کیلئے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔ ابھی نیا نظام نہیں آ یا اور نہ جانے کتنی مدت اور لگے ۔ اس دوران سول انتظامیہ کے افسران کے ہاتھ میں شہروں کی باگ ڈور ہے ۔ا گر لاہور کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو شہر کے مرکز کے حالات تو ٹھیک ہیں کہ افسران اور حکومت کے وزراء نے اس علاقے سے گزرنا ہوتا ہے لیکن شاہراہ قائد اعظم (مال روڈ)سے جوں جوں دور ہوتے چلے جائیں صورتحال بگڑتی جاتی ہے ان علاقوں میں نچلے درجے کے سرکاری ملازمین نے انہی مچا رکھی ہے ۔ تجاوزات سب سے بڑی کمائی کا ذریعہ ہوتی ہیں اور بعض بستیوں میں تو تجاوزات نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تاجپورہ ایل ڈی اے سکیم ٹائون شپ کا مین بازار ساندہ روڈ مین روڈ شاد باغ غرض لاہور کے مختلف حصوں میں شام کے وقت بازار اندر بازار کی صورت حال ہوتی ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ لاہور جیسے میٹروپولیٹن سٹی میں یہ تجاوزات مقامی سرکار ی اہل کاروں کو ماہانہ دئے بغیر جاری ہوں ۔ تاجپور ہ ایل ڈی اے سکیم کی نہر مین بلیورڈ سے بٹ چوک تک کی لنک روڈ چوڑائی کے لحاظ سے لاہور کی مال روڈ کے لگ بھگ ہے لیکن شام کے وقت یہاں سے دس فٹ کی سڑک بھی باقی نہیں بچتی ۔ دکانوں کے آگے دکانوں کا ایک چین در چین سلسلہ سج جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ لاہور کے تقریبا وسط میں ہو رہا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ شہر میں بلدیاتی حکومت نہ سہی ایم پی اے اور ایم این کی صورت میں تو عوامی نمائندے موجود ہیں ۔ سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور معاشرتی زندگی عذاب بنی رہتی ہے ۔ سابق دور یعنی مسلم لیگ ن کے دور سے یہ سلسلے شروع ہو ئے کہ تجاوزات کرنیوالے تاجر مسلم لیگ کی کسی شخصیت کو بلا کر ایک تنظیم کھڑی کرتے اور پھر کسی سرکاری افسر کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان تاجروں سے پوچھے کہ راستے پر قبضہ کیوں کر رکھا ہے۔ اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت ہے تو اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی اور صورت حال اور زیادہ بگڑ چکی ہے کیونکہ اب تو جیسے کسی کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اگر حکومت کا کوئی نمائندہ شام کو شہر کے مال روڈ سے ہٹے ہوئے علاقوں کا جائزہ لے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ تجاوزات کا محکمہ کیا گل کھلا رہا ہے اور تجاوزات کی آڑ میں تہ بازاری والوں سے مل کر اپنی جیبیں گرم کر کے کس طرح حکومت کی بدنامی کی جا رہی ہے ۔چیف منسٹر عثمان بزدار بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ ہر جگہ تو نہیں جا سکتے یہ کام تو ان کے مخلص معاونین کا ہونا چاہئیے کہ وہ شہر کے فوری نوعیت کے معاملات کو دیکھیں مثلاً میڈیا میں ایک عرصہ سے لکھا جا رہا ہے کہ مال روڈ سے ہربنس پورہ تک اور خاص طور پر مغلپور ہ سے رنگ روڈ تک بنائے گئے یو ٹرنوں کا ٹریفک کے حوالے سے از سر نو جازہ لیا جائے۔ سابق حکومت میں تیزی سے نمبر بنانے کیلئے نہر کے اطراف میں سڑکیں تو چوڑی کر دی گئیں لیکن ان پر یو ٹرن ان نیچرل اور ارد گرد کی بستیوں کے شہر کی طرف آنے جانے اور رنگ روڈ کی طرف آنے جانے کے راستوں کو سامنے نہیں رکھا گیا چنانچہ تب سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کو روزانہ ایک عجب عذاب سے گزرنا پڑتا ہے ۔ چیف منسٹر اس طرف دھیان دے کر اور غلط بنائے گئے یو ٹرنوں کی بجائے صحیح مقام پر نئے یو ٹرن بنا کر ان گنت ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹ سکتے ہیں ۔ نئے بلدیاتی نظام سے پہلے یہ کام کر کے حکومت عوام کی دعائیں لے سکتی ہے کوئی معاون وزیر اعلی تک یہ بات کیوں نہیںپہنچاتا ۔ اور نہیں تو اس علاقے میں ڈیوٹی دینے والے ٹریفک سٹاف کی رائے ہی لے لی جاتی تو عوام کا یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا ۔

مزیدخبریں