بیا نیوں کی ہا ر یا جیت!!

Nov 22, 2020

کامران نسیم بٹالوی

پاکستانی  سیاست ہو یا پھر عالم گیری سیاست بیانیوں اور نظریات کو حرف آخر نہیں سمجھا جاتا پارٹی مفادات اور طاقت کے حصول کی خاطر سیاسی دشمنوں کو گلے بھی لگانا پڑتا ہے،عوامی محرومیوں اور مجبوریوں کو سیاسی جیت کیلئے مہرے کے طور پر استعمال کرنے والے مسند حکمرانی پربیٹھتے ہی ماضی کے تمام وعدوں اور دعووںسے منحرف ہونے کے بعد اپنے ہی نظریات اور بیانیوں کو ہوا میں اُڑا دیتے ہیں ۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ بھی ایسی ہی صورت حال کا آئینہ دار ہے اور اس معاملہ میں گلگت  بلتستان کے حالیہ انتخابات مثال کے طور پر پورا پورا فیٹ اتر رہے ہیں ۔گلگت  بلتستان کے جغرافیائی اور سیا سی اعتبار سے اہمیت کی بات کی جائے تو  اس کی اہمیت اس وقت ہی بڑھ گئی تھی جب 80کی دہائی میں پاک چین دوستی کا شا ہکار ر شاہراہ ریشم بنائی گئی۔اور پھر اسی  دوستی کی شاہراہ نے پاکستان میں  معاشی انقلاب کے لئے سی پیک  کا دروازہ کھولا72971 مربع کلو میٹر پر محیط گلگت  بلتستان کی آبادی 80 لاکھ کے لگ بھگ  شہریوں پر مشتمل ہے جو تین ڈویژن  بلتستان،گلگت اور دیا میر میں بٹا ہو ہے بلتستان کے چار اضلاع سکردونگر ،کھر منگ،روندواور اور گھانچے شامل ہیںجبکہ گلگت ڈویژن میں گلگت،ہنزا نگر اور عذر شامل ہیں اور اسی طرح دیا میر ڈویژن میں استور ،داربل اور تانگیر شامل ہیں اور گلگت  بلتستانکی سرحد چین کے مسلم اکثریتی صوبہ سنکیانگ سے جا ملتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ گلگت  بلتستان کی شرح خواندگی سو فیصد ہے ۔
 حالیہ انتخابات کے نتایئج نے  بلتی عوام اور ان  کے نمایئندوں کے سیاسی رجحان اور کارکردگی کو روایتی طور پر ہی ثابت کیا اور نتائج بھی مر کز میںپی ٹی آئی کی حکمران جماعت کے مقرر کردہ کنڈیڈیٹس کے حق میں آئے جس کے تحت 24 میں سے 23 نشستوں پر کرائے جانے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے  9  آزاد 7 پیپلز پارٹی3 ن لیگ 2   جے یو آئی علما اسلام 1 مجلس وحدت المسلمین1 ممبران نشستیں جیت کر  گلگت  بلتستان اسمبلی کے ارکان بننے میں کامیاب ہوئے 7 آزاد ممبران میں سے 6 الیکٹیبل  پی ٹی آئی کے ساتھ جا ملے گلگت  بلتستان کے حوالے سے  سیاسی پنڈت قیاس آرایئوں اور پیش گویئوں سے کام لے رہے تھے اس لئے کہ اب تبدیلی سرکار قائم ہے او ر گلگت  بلتستان میں فیئئر الیکشن ہوںگے  اور ووٹ کو عزت ملے گی  اور مرکزی حکومت کے اثر و رسوخ سے ہٹ کرگلگت  بلتستان کی سیاسی اور جمہوری فتح ہو گی لیکن حیرت یہ کہ ملک میں پی ٹی آئی کا عوام کے درمیان گرتے گراف کے باوجود جیت میں آگے رہی بالکل ایسے ہی  جیسے گذشتہ دور حکومت میں  ن لیگ کی جیت تھی  اورن لیگ کو گلگت  بلتستان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا نے 24 میں سے 22 نشستیں حاصل کیں  کیونکہ مرکز میں بھی مسلم لیگ ن کی ہی حکومت تھی  ماضی کی طر ح اس بار بھی  جیتنے والے تقریبا  تمام بلتی آزاد امیداوروں نے اپنی جیت پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی   یہ معا ملات دیکھے جائیں تو  بلتی عوامی نمائندوں کا ایک ہی سلوگن نظر آرتا ہے’’ جیہڑا جتے اوہدے نال‘‘ سوال یہ کہ سو فیصد شراح خواندی کے باوجود سیاسی شعور کہاں چلا جاتا ہے لیکن یہاں سیاسی مبصرین کے نزدیک گلگت  بلتستان کے لوگوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے مرکزی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چہ جایئکہ مرکز میں ن لیگ،پیپلز پارٹی یا پھر پی ٹی آئی  ہی کیوں نہ ہواس بار گلگت  بلتستان  کے انتخابات میں سیاسی گرمجوشی کا ماحول ماضی کی نسبت شدت میں تھا اور تما م مرکزی سیاسی رہنما الیکشن کے دوران بھر پورپڑائو ڈالے رہے اور سرگرم نظر آئے گلگت  بلتستان کے انتخابات کے نتائج  سے دو سیاسی بیانیوں کو شدید مات ہوئی پہلی یہ کہ حکمران جماعت کے قائد عمران خان حکومت میں آنے سے قبل الیکٹیبلز کو گلے لگانے کے شدید مخالف تھے لیکن حکومت بناے کے  لئے سب سے پہلے اس بیانیہ پر یو ٹرن لیا گیا اور اب پھر دوبارہ یہ یو ٹرن لیتے آزاد بلتی ارکان کو گلے سے لگا کر اس بیانیہ کو روندا گیا جبکہ  دوسری طرف مرکز میں حکومت ختم کرنے پر تلی ہوئی گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا شیرازہ گلگت  بلتستان کے الیکشن میں بکھرتا نظر آیا  جو انفرادی سیاسی برتری کے لئے منقسم رہے اور ایک دوسرے کے حریف بنتے الیکشن لڑا  اور بجائے سیاسی ایڈجسٹمنٹ کر کے جیت اپنے نام کرنے کے سولو پرواز کی ٹھانی  اور اپنی سیاسی ہار کی خفت  مٹانے کے لئے ان انتخابات کو بھی انجینیئرڈ  قرار دے رہے ہیں  پی ڈی ایم کی یہ بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے کہ نتائج میں رکاوٹ  ڈال کر اور تاخیر کر کے اثر انداز ہو گیا جس کی وجہ سے الیکشن کمشنر اور سیاسی رہنما  ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفنس کر کے نشتر چلا رہے ہیں پی ڈی ایم کے اس بیانیہ کی شکست کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ وہ اس ٹیسٹ انتخابات میں متحد نہ ہو سکے  اور بہت کم سیٹیں حاصل کر سکے ۔

مزیدخبریں