دراصل دریائے نیل کا ایک حصہ پانی اس ڈیم سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسوان شہر سے ایک وسیع میدان نظر آتا ہے اس میدان کے شروع میں ایک خوبصورت مقبرہ ہے یہ مقبرہ اسماعیلی کمیونٹی کے پہلے امام کریم اول کا ہے ۔ یہ سرخ مگر خوشنما مر مر کے پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ میں خصوصی طور پر اس کے اندرونی حصے میں گیا اور اس مزار کے نگران سے پوچھا کہ یہ پتھر مصر کے کس پہاڑ سے لائے گئے تھے؟ تو اس نگران یا متولی صاحب نے بتایا کہ یہ پتھر آسٹریلیا سے اُسوقت کی مصری حکومت کی اجازت سے درآمد کئے گئے تھے ۔(واللہ اعلم ) اس میدان کے مغربی جانب پہاڑی سلسلہ ہے اور اس میدان اور پہاڑی سلسلے کا نام وادی الملوک ہے ۔ یعنی سلاطین اور بادشاہوں کا علاقہ، اکثرفراعنہ کے اہرامات یا مقابر اس پہاڑکے اندر ہیں۔ اس پہاڑ کے اندر مختلف سمتوں میں ٹنل بنائے گئے ہیں جو ایک سو سے دو سو یا ڈیڑھ سو میٹر طویل ہیں اور 35سے 40فٹ چوڑے ہیں۔ ٹنل کے دونوں اطراف میں سلاطین کی کنیزوں، مختلف پرندوں ، دیوتائوں ، شہزادوں اور شہزادیوں کی تصاویر سے نقش و نگاری کی گئی ہے۔ ان تصاویر میں استعمال کئے گئے رنگ (کلرز ) اس قدر دل آویز ہے کہ ہز اروں سال گزرنے کے بعد بھی ان کی رنگت بالکل تازہ ہے ۔ اور ماند نہیں پڑی۔ جیسا کہ ابھی ابھی دیواروں پر ان کی نقش نگاری کی گئی ہو۔ ان ٹنلز کے اندر جا کر چکور یا گو ل دائرے کے اندر دو دو یا تین تین کمرے ہیں ان میں سے ایک ایک مرکزی کمروں میں فراعنہ کے حنوت شدہ لاشیں اور بعض گھریلو برتنے کے سامان ، تلواریں ، چُھریاں ، گھڑے و دیگر مختلف سامان فرعون کے قبر کے متصل کمروں میں محفوظ ہیں۔ یہ اس عقیدے کے تحت جیسا کہ ہم نے مضمون کی ابتداء میں فراعنہ کی عقائد کا ذکر کیا۔ یہ سامان اس لئے اہرامات میں رکھے گئے ہیں جب یہ فرعون اٹھے گا تو اسے برتنے کی چیزوں کی ضرورت پڑے گی تو وہ آسانی سے انہیں استعمال کر سکیں۔ ان پہاڑوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں پانی اور نمک کے آثار نہیں ہیں۔ انہیں دو چیزوں کے اثرات سے چیزیں خراب ہو جاتی ہیں۔ قدیم مصریوں اور فراعنہ کے انجینئروں نے فراعنہ کی فوج کو مشورہ دیا ہو گا کہ سلاطین اور فراعنہ کی لاشوں کو ان پہاڑوں کے اندر اہرامات میں محفوظ کیا جائے۔ میں نے ان ہرامات میں 15حنوت شدہ فراعنہ کی لاشیں دیکھیں جو کہ بعض سونے کے تابوت اور بعض شیشے کے تابوتوں میں محفوظ تھیںاور سب ہی برائون رنگ کے کفن میں لپٹی ہوئی تھیں۔ لیکن ان کے چہرے کھلے ہوئے تھے ہمارے گائیڈنے یہ بھی بتایا کہ ان میں سے بعض فراعنہ کی لاشیں قاہرہ کے متحف (عجائب گھر) کے گیلری میںمنتقل کئے گئے ہیں ۔ اب آئیے اُس فرعون کی جانب جس کی ہٹ دھرمی ، شقاوت ، بغاوت ، اور ظلم تاریخ میں نہ صرف ضرب المثل بیان ہوا ہے بلکہ اس نے اللہ کی بچھائی ہوئی زمین پر خود زمین کا مالک بننے کا اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھا تھا۔ جس کی طرف اللہ جل جلالہ نے اپنے دو جلیل القدر پیغمبروں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ہارون علیہ السلام کو بطور مصلح و ھادی بھیجا تھا ،ویسے سیدنا موسیٰ جلالی طبیعت کے نبی تھے جنہوں نے مصر سے ھجرت کرنے سے پہلے ایک قِبطی کو ایک مسلمان پر ظلم کرنے کے پاداش میں جان سے ماردینے کی نیت سے نہیں بلکہ ظلم کی مدافعت کی نیت سے ہلکا سا مُکّا رسید کیا تھا جس سے نہ صرف قِبطی کو اس کی نانی یاد آگئی تھی بلکہ اس کا کام بھی تمام ہو گیا تھا۔ اللہ کو اپنے نبی جناب موسیٰ علیہ السلام کی جلالی طبیعت کا علم تھا اس لئے اللہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو براہِ راست اور سیدنا ہارون علیہ السلام کو ضمناً نرمی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : اذھبا الے فرعون انہ طغی فقولا لہ قولا لیناً لعلہ یتذکر اویخشیٰ۔ (سورۃ طٰہٰ ایت نمبر 44,43)
ترجمہ: تم دونوں (موسیٰ ؑو ہارون ؑ) فرعون کے پاس جا کر اس کو نرم لہجے میں راہِ راست پر آنے کی دعوت دو وہ بغاوت پر اتر آیا ہے شاید کے تمہاری نصیحت اور دعوت سے وہ نصیحت پکڑے اور اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو۔ چنانچہ فرعون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو دعوتِ الی اللہ سے باز رکھنے اور انہیں زیر کرنے کی نیت سے اپنے جادوگروں کو حکم دیا کہ وہ اپنے جادو کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کو زیر کریں ۔