ہم اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتے یہ ہمارا المیہ ہے، ہم ہیروز کو ان جائز مقام بھی نہیں دیتے، ہم کسی کو اچھا یا برا ثابت کرتے وقت خود کو فرشتہ سمجھنے لگتے ہیں، دوسروں کے بارے فیصلہ کرتے ہوئے انصاف کے اعلیٰ معیار مقرر کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جن لوگوں نے اپنی زندگیاں ہمارے بہتر مستقبل کیلئے صرف کر دیں ہم تو انہیں بھی اہمیت نہیں دیتے۔ بدقسمتی ہے کہ آج ملک میں کہیں کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا جو رول ماڈل بننے لگتا ہے ہم اسے "رول" دیتے ہیں یا اسے"رول" کر دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں کئی ایسے بہتر کردار ہیں جنہیں ہم نے نظر انداز کیا، حکمرانوں نے حقیقت سے آنکھیں چرائیں۔
چودھری محمد اسلم بھی انہی کرداروں میں سے ہیں وہ برسوں قومی خدمت میں مصروف رہے گذشتہ دنوں ان کا انتقال ہوا ہے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور جس عظیم مقصد کے لیے کام کر رہے تھے ہمیں اسے پورا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ چودھری محمد اسلم لندن کی چودھری رحمت علی میموریل کمیٹی کے صدر تھے۔
نقاش پاکستان اور اس پاک سرزمین کے حصول کیلئے28’جنوری 1933،بروز عید الفطر کو تحریک چلانے والے چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو کیمبرج سے پاکستان منتقل کرنے کیلئے کاغذات تو کالے بہت کئے گئے تھے لیکن عملی قدم چودھری محمد اسلم نے ہی اٹھایا تھا۔ہوا یہ کہ 1987’ میں اسوقت کے گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی لندن آئے وہ کیمبرج میں نقاش پاکستان اور سب سے پہلے ‘پاکستانی’ چودھری رحمت علی مرحوم کی قبر پر فا تحہ پڑھنے گئے اور پاکستان ہائی کمیشن کے ایجو کیشن اٹیشی سید زاہد حسین ان کے ہمراہ گئے۔ سید زاہد حسین کے مطابق قبر پر فاتحہ پڑھنے کے بعد گورنر سجاد حسین قریشی قبر کے ساتھ کچھ وقفہ کیلئے خاموش کھڑے ر ہے اور پھر بْڑ بْڑائے’’ اوہ یار چودھری توں کدوں تک ساتھوں اتنی دْور سْتے رہنا’’۔اس کے بعد15’اگست1987 کوایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گورنر نے سامعین سے فرمایا کہ وہ کیمبرج جایا کریں اور چودھری رحمت علی کی قبر پر فاتحہ خوانی کیا کریں جس نے ہمیں یہ خوبصورت نام دیا۔ ان تمام موقعوں پر چودھری محمد اسلم،سید زاہد حسین اور طارق عظیم بھی ان کے ہمراہ ہوتے تھے۔
اس کے بعدلندن میں ایک چودھری رحمت علی میموریل کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد نقاش پاکستان کے جسد خاکی کوان کے اپنے تجویز کر دہ ملک ‘پاکستان’ پہنچایا جانا تھا۔ اْس کمیٹی کا صدر چودھری محمد اسلم کو چنا گیا اور اس کے جنرل سیکرٹری طارق عظیم مقرر ہوئے( طارق عظیم بعد میں پرائم منسٹر شوکت عزیز کے زمانے میں کیبنٹ منسٹر بھی رہے اور اسکے بعد کینیڈا وغیرہ میں ہائی کمشنر بھی)۔پہلی میٹنگ جنوری 1989 میں ہوئی اور اس سے لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر شہر یار خاں نے خطاب کیا۔ اس کے بعد تقریبا’’ ہر سال کیمبرج جا کر فاتحہ خوانی کی جاتی رہی جن کیلئے ہر دفعہ انتظام چودھری محمد اسلم ہی کرتے تھے ما سوائے ایک دو کے جنکا انتظام محمد شریف بقاء اور راجہ رفاد نے کیا۔ قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد اجتماع کے ممبران کوامانول کالج (رحمت علی کا کالج)، کیمبرج یونیورسٹی ہال اور کیمبرج ٹاؤن ہال میں خطاب کیا جاتا جن میں بعض دفعہ سٹوڈنس بھی شامل ہوتے۔ہمارے ہائی کمیشن کے کسی نمائندے کے علاوہ ان اجتماعات سے پروفیسر کے کے عزیز، پاکستان ہائی کمیشن کے نمائندے اور کچھ دوسرے حضرات نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد نقاش پاکستان کے بھتیجے چودھری عبدالستار مرحوم سے پاکستان ہائی کمیشن کے نمائندے نے خود مانچسٹر جا کر اس سے جسد خاکی کو پاکستان لیجانے کی اجازت لی ، چودھری رحمت علی کے متوفی بھائی محمد علی کی بیوی جنت بی بی سے بھی اجازت نامہ لیا گیا۔ان سب کو برٹش ہوم آفس بھیجا گیا اور ہوم آفس نے جسد خاکی کو کیمبرج سے پاکستان منتقل کرنے کا اجازت نامہ پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر عبد ا لباسط کو بھیج دیا۔ چودھری شجاعت حسین نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران ایک بیان میں یہ خوشخبری سنائی کہ چودھری رحمت علی کے جسد خاکی کو جلد پاکستان منتقل کردیا جائیگا۔ ڈپٹی ہائی کمشنر کی ہدایت پر اور ہوم آفس کے اجازت نامہ کی بنیاد پر قبرستان کے دفتر والوں نے قبر کو کْشائی کی اور جسد خاکی کے بکس تک پہنچ گئے۔اتنے میں مخالف پارٹی میں خطرے کی گھنٹی بج گئی اور خوف و ہراس میں شور مچانا شروع کردیا۔ چونکہ انہوں نے سوچا کہ رحمت علی کے صرف جسد خاکی کے لانے پر بھی وہ جھوٹ پر مبنی سٹیل کا حصار جو انہوں نے اپنے نا خداؤں کی حفاظت کیلئے ان کے گرد کھینچ رکھے ہیں ٹوٹ پْھو ٹ کا شکار ہو جائینگے۔غالبا’’ اسی لئے پروفیسر کے کے عزیز نے اپنی کتاب کا نام ہی The Murder of History رکھا۔چودھری رحمت علی ان طلباء کے لیڈر تھے جو اس اسلامی ریاست کو قائم کرنے والوں میں ،کلام پاک کے الفاظ میں ‘سابقون الاولون، کہلانے کے مستحق بنتے ہیں اور انگریزی میں جنہیں ‘وین گارڈ’ کہا جائیگا۔
مخالفین نے صدر مشرف کو اس بات پر قائل کیا کہ رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان نہ لا یا جائے اور صدر نے حکم صادر کیا کہ ‘جہاں ہے وہیں روک دیا جائے/Stay put اور کام بند کردیا گیا۔ قبر عرصہ تک ویسے ہی پڑی رہی۔ پھر ایک درجن کے قریب ہم لوگ چودھری محمد اسلم(مرحوم) کی معیت میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملے۔ انہوں نے ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد قبر کو ڈاکٹر عبدالباسط، ڈپٹی ہائی کمشنر کی تجاویز کے مطابق ٹھیک کردیا گیا۔ بلکہ پہلے سے بھی بہتر بنا دیا گیا۔ چودھری محمد اسلم کا کردار ہر طرح سے نہایت قابل تعریف تھا۔ اب چودھری محمد اسلم کے مقصد کو آگے بڑھانا ہے۔ انگلینڈ میں موجود تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ متحد رہیں۔ بالخصوص چودھری اقبال الدین سے درخواست ہے کہ وہ دوستوں کو جمع رکھیں۔
رواں برس کئی اہم شخصیات دنیا سے گئی ہیں۔ ان میں سے کئی شخصیات نے ملک و قوم کی بہت خدمت کی لیکن جواب میں قوم نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان میں سے ایک ہیں۔ عمر شریف کا انتقال ہوا، وہ مشکل میں نظر آئے، گلوکار شوکت علی کا انتقال ہوا وہ بھی تکلیف میں رہے۔ اولمپیئن نوید عالم کا انتقال ہوا وہ بھی تکلیف میں تھے۔ اس کے علاوہ بھی بے حسی سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لندن میں تین پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ جو ہوا کوئی اور ملک کبھی اس کی اجازت نہ دیتا۔ ہم نے اپنے تین بہترین کھلاڑیوں کو جیل بھیج دیا۔ کیا زندہ قومیں ایسے کرتی ہیں۔ اس وقت کی حکومت نے پاکستان کی کرکٹ پر ظلم کیا۔ بہرحال اس پر بعد میں بھی بات ہو گی لیکن ہمیں اپنے روئیے بدلنا ہوں گے۔ کیا ہم ہمیشہ قومی ہیروز کو متنازع بناتے رہیں گے، کیا قومی ہیروز کو یاد رکھنے کا یہی طریقہ ہوتا ہے جیسے ہم کرتے ہیں، کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے۔ہمارے لوگ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں اور بدقسمتی ہے کہ باصلاحیت لوگوں کو برباد کرنے میں بھی ہم کسی سے کم نہیں۔ اگر ہم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اچھے لوگوں کو ترسیں گے۔