2002ء کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ، صوبہ پنجاب میں واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ چودھری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد صوبے کو حقیقی فلاحی صوبہ بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا، جس کے نتیجے میں تعلیم، صحت، صنعت، زراعت، انفرا اسٹرکچر اور امن و امان کے لحاظ سے پنجاب مثالی صوبہ بن گیا۔ وزیراعلیٰ بنتے ہی چودھری پرویز الٰہی نے کسان طبقہ خاص طور پردرمیانے اور چھوٹے درجے کے کاشت کاروں کو وہ مراعات دیں، جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے کسانوں کو زرعی قرضے پر سولہ فی صد شرح کے حساب سے سود دینا پڑتا‘ تاہم پرویز الٰہی نے یہ شرح کم کر کے پانچ فی صد کر دی۔ زرعی ٹیکس سے کسانوں کی زندگی اجیرن بن چکی تھی۔ لہٰذا ساڑھے بارہ ایکڑ زمین پر زرعی ٹیکس بالکل ختم کر دیا گیا۔ پرویز الٰہی کے دور میں صنعت میں انقلاب آ گیا۔ پنجاب میں انسپکشن کا فرسودہ نظام ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ سیلف ایسیسمنٹ اسکیم متعارف کروائی گئی۔ سیلف اسیسمنٹ سکیم کی وجہ سے لیبر انسپکٹروں کا کردار بالکل ختم ہو گیا۔ ریو نیو دو گنا ہونے سے آمدن میں اضافہ ہوا۔ وہ آمدن ہم نے لیبر کالونیاں بنانے پر صرف کی۔ زراعت اور صنعت میں پرویز الٰہی حکومت کی ان کامیابیوں کا اعتراف ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی اداروں نے کیا۔شعبہ صحت میں بھی بہت سی تبدیلیاں لائی گئیں۔ ایمرجنسی میں مفت ادویات ملنے لگیں۔ ہنگامی حالات اور حادثات کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی طرز پر 1122 ایمبولینس سروس شروع کی گئی۔ اس کا رسپانس ٹائم، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی ریسکیو سروس کے رسپانس ٹائم سے بھی کم ہے۔ یہ سروس لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی ہر صبح کا آغاز ریسکیو پراجیکٹ کی میٹنگ سے کرتے تھے۔ پنجاب اسمبلی ایکٹ کے ذریعے قائم ہونے والی اس سروس کو ہر لحاظ سے معیاری بنانے کے لیے انگلینڈ سے تجربہ کار ماہرین اور ٹرینرمنگوائے گئے۔ ایمبولنس گاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق لیس کیا گیا۔لاہور، رحیم یار خان اور سرگودھا میں تین نئے میڈیکل کالج قائم کیے گئے۔ دو نئی میڈیکل یو نیورسٹیاں شروع کی گئیں۔ ڈیرہ غازی خان میں بھی میڈیکل کالج کی تعمیر شروع ہو گئی تھی۔ پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل اسٹوڈنٹس کے ماہواراسکالر شپ میں سو فی صد اضافہ کر دیا گیا۔ میڈیکل کالجوں میں پس ماندہ اضلاع کے مخصوص کونے میں دس فی صد اضافہ کر دیا گیا۔ نرسنگ آفیسر کے نئے عہدے کی منظوری دی گئی۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور اور ملتان میں نرسنگ کالج قائم کیے گئے۔ تیس اضلاع میں پبلک ہیلتھ نرسنگ سکولز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح شعبہ تعلیم میں بھی جدت لائی گئی۔
پنجاب میں پرویز الٰہی نے پڑھا لکھا پنجاب پروگرام شروع کیا۔ بچوں کے لیے میٹرک تک تعلیم اور درسی کتابیں مفت کر دیں۔ غریب بچیوں کے لیے وظائف مقرر کیے۔ جن سکولوں میں سٹاف کم تھا، ان کو پورا سٹاف دیا۔ جہاں فرنیچر نا کافی تھا، وہاں فرنیچر مہیا کیا۔ جن سکولوں کے پاس بلڈ نگ نہیں تھی، ان کو بلڈ نگ تعمیر کر کے دی۔ اس پروگرام کے تحت تیں لاکھ بچے سکولوں میں داخل کیے گئے۔ ساٹھ ہزار اساتذہ بھرتی کیے گئے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ صوبے میں نئے ٹیکنیکل سنٹرز قائم کیے گئے۔ جرمنی اور سویڈن کے تعاون سے سیالکوٹ، لاہور موٹر وے پرنئی پولی ٹیکنیکل یو نیورسٹیوں کی منظوری بھی ہو چکی تھی۔ صوبے میں ہنرمند لیبر فورس تیار کرنے کا الگ ادارہ قائم کیا گیا۔ پالیسی یہی تھی کہ وہ علاقے جہاں ہنرمند کارکنوں کی ضرورت ہے، وہاں پر ہی نئے ٹیکنیکل ادارے قائم کیے جائیں تا کہ ان علاقوں کے نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر مقامی انڈسٹری کی ضرورت کو مقامی سطح پر ہی پورا کر دیا جائے۔ صنعتی کارکنوں کو مراعات صنعتی کارکنوں کے علاج معالجہ کے لیے مختلف ہسپتالوں میں پچیس سو بیڈز کا اضافہ کیا گیا۔ صوبے کی تمام انڈسٹریل اسٹیٹس کے ساتھ جدید لیبرکمپلیکس تعمیر کیے گئے، جن میں کمیونٹی سنٹرز، ڈسپنسریاں، ٹریننگ سنٹرز اور سکول قائم کیے گئے۔ سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں یہ کمپلیکس کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔ صنعتی کارکنوں کے لیے شیخو پورہ، سیال کوٹ اور رحیم یار خان میں لیبر کالونیوں کی تعمیر کی گئی۔
ورکر ویلفیئر بورڈ کیاسکولوں میں صنعتی کارکنوں کے سترہ ہزار بچوں کو مفت تعلیم، مفت سٹیشنری، مفت یو نیفارم اور مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کی گئی۔
پنجاب میں معذور، گونگے، بہرے اور نابینا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پہلی بار خود مختار ادارہ قائم کیا گیا۔2004ء میں معذور طلباء کے لیے لاہور میں پہلا بلائنڈ ڈگری کالج قائم کیا گیا۔ دوسرا ڈگری کالج بہاول پور میں شروع کیا گیا۔ ان اداروں میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہیں اور مراعات، عام تعلیمی اداروں سے دو گنا مقرر کی گئیں۔
جنوبی پنجاب کو بھی خاصی اہمیت دی گئی۔ پرویز الٰہی دور میں عباسیہ کینال، صادقیہ کینال شرقی، پنجند کینال اور مظفر گڑھ کینال کی بحالی کے منصوبے مکمل کیے گئے۔ چولستان میں پانی کے نئے تالابوں کی تعمیر، راج باہور کھالوں کی لائننگ کی گئی۔ چشمہ رائٹ بینک کینال اور ڈیرہ غازی خان میں سیلابی پانی استعمال کرنے کے منصوبے بنائے گئے، جن سے لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہو رہی تھی۔ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے مہیا کی گئی بجلی کا آدھا بل پنجاب حکومت دیتی تھی۔ 2003ئمیں پرویز الٰہی نے لاہور میں ریپڈ ماس ٹرانزٹ ٹرین پراجیکٹ پر بھی کام شروع کر دیا تھا۔ یہ پورے لا ہور کو بہ ذریعہ ٹرین آپس میں جوڑنے کا پراجیکٹ تھا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ یہ سارا پراجیکٹ زیر زمین تھا۔ ایشین ڈولپمنٹ بنک نے اس کے لیے ایک ارب ڈالر قرضہ کی منظوری دے دی تھی، جس کی واپسی کے لیے دس سال کی چھوٹ تھی۔ قرضے کی واپسی قسطوں کی صورت میں صفر اعشاریہ چھتیس فی صد پر ہونا تھی۔ سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے امریکی اور آسٹریلوی ماہرین کی ایک ٹیم بھجوائی۔ ان ماہرین نے پراجیکٹ کا تفصیلی جائزہ لیا اور ہر لحاظ سے اسے بہترین پراجیکٹ قرار دیا۔
لاہور رنگ روڈ کا بیشتر کام بھی پرویز الہی دور میں مکمل ہوا۔ کنٹونمنٹ کا ایریا بھی اس میں شامل کیا گیا۔ کنٹونمنٹ ایریا کی زمین کافی مہنگی تھی۔ کنٹونمنٹ ایریاز میں سے دو تین exit دیئے گئے۔ رنگ روڈ اب کنٹونمنٹ ایریا کے بیچ میں سے گزر رہی ہے۔
(جاری ہے)