فیفا ورلڈ کپ :قطری حکام کا لائق رشک اقدام


عالمی میڈیا تسلیم کر رہا ہے کہ ’قطر اب ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی نہیں بلکہ خلیجی ریاستوں میں سے ایک ایسی ریاست ہے جس کے شہریوں کا شمار دنیا کے امیر ترین شہریوں میں کیا جاتا ہے‘۔ 20 نومبر 2022ءکو قطر کے شہر دوحہ میں فیفا ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ کھیلا گیا۔ جس میں ورلڈ کپ کی تاریخ میں ایک نیا اضافہ ہوا۔ میزبان ملک قطر کی ٹیم اپنی مقابل ٹیم سے ہار گئی۔ دنیا بھر کا میڈیا یہ حقیقت سامنے لا رہا ہے کہ ’دوحہ ورلڈ فٹبال میچ‘ دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین میچ ہے۔ یاد رہے کہ قطر کو 2010ءمیں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ قطر حکام نے نامزدگی کے اس اعلان کے ساتھ ہی جدید سہولیات سے آراستہ سٹیڈیمز ، ہوٹلز، شاپنگ مالز، فین زونز اور رہائش گاہوں کی تعمیر و تزئین شروع کر دی۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان انتظامات پر قطر نے تقریباً 300 بلین ڈالر ڈالرز خرچ کر دیے ہیں۔ اس ریفرنس میں اسے دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین ورلڈ کپ قرار دیا جار ہا ہے۔ ماہرین کے تخمینوں کے مطابق اس کی لاگت ماضی کے تمام ورلڈ کپس کی کل لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔ 
دوحہ کا ایئر پورٹ ان دنوں دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ قرار دیا جار ہا ہے۔ جہاں ہر روز 900 سے زائد مسافر طیارے لینڈ کریں گے۔ میڈیا میں متوقع اعداد و شمار کے مطابق تقریباً فٹبال کے 12 لاکھ شائقین قطر آئیں گے۔ یہ امر پیش نظر رہے کہ قطر میں ’کالاسونا‘ 20 ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں جب دریافت ہوا تو قطر کی شناخت ایک ملک یا قوم کی حیثیت سے نہیں تھی۔ تب یہ ایک ویران، سنسنان اور بے آباد سرزمین تھی۔ بی بی سی کے مطابق : ”یہ ایک عاجز سی بستی تھی جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع و عریض صحراو¿ں سے آنے والے بدوو¿ں پر مشتمل تھی۔یہ بستی خوفناک معاشی مشکلات سے دو چار تھی۔ قطر میں مقامی باشندوں کے لیے روزگار کا حصول مشکل تھا اور وہ پر کشش معاشی مواقع کی تلاش میں یمین و یسار سرگردہ تھے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’1950ءمیں یہاں صرف 24 ہزار سے بھی کم باشندے موجوہ رہ گئے تھے، انخلاءآبادی اپنی جگہ ایک المیہ تھا، 1950ءہی میں قطری معیشت مستحکم ہوئی اور یہی سال قطری باشندوں کے لیے دنیا کے چند امیر ترین شہریوں میں شامل ہونے کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا‘۔
یہ تو خیر پون صدی قبل کی بات ہے۔ آج قطر کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کثیر المنازل فلک بوس عمارات آسمان کے رخساروں پر بوسوں کی مہریں ثبت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی دوران مغربی میڈیا پر بلاجواز ایک طوفانی میڈیائی مہم بھی شروع ہے۔ اس میڈیا کو تکلیف یہ ہے کہ قطری حکام نے دنیا بھر سے آنے والے فٹبال کے تمام شائقین کو اس پروٹوکال پر عمل درآمد کے لیے کیوں پابند کیا کہ ’ان کا تعلق خواہ کسی بھی ملک سے ہو ، انہیں ہماری ثقافت اور روایات کا احترام کرنا پڑے گا،یہاں کسی کو کھلے بندوں اور برسر عام شراب نوشی کی اجازت نہیں ہو گی اور نہ عریاں لباس اور بند کمروں کی مشغولیات کی شاہراہوں پر اجازت دی جائے گی۔ نیز یہ کہ ہم جنس پرستوں کے پرچم لہرانے اور نعرے لگانے پر بھی پابندی ہو گی‘۔ اس پر مغربی میڈیا آتش زیر پا ہے۔ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں بے جا شور و غوغااور واویلا کر رہی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ممیا رہی ہیں کہ عالمی برادری قطر کا بائیکاٹ کرے۔ لیکن قطری حکام تادم تحریر اپنے مو¿قف پر قائم ہیں اور اس سے سرِ مو پس قدمی کے لیے آمادہ نہیں۔ یاد رہے کہ اسی طوفانِ بدتمیزی کے تناظر میں ایک مغربی اینکر نے جب قطر ورلڈ کپ کے سکیورٹی چیئرمین عبدالعزیز عبداللہ الانصاری سے سوال کیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ ’ہم اپنے ملک میں ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن آنے والوں کو ہماری روایات کا احترام کرنا ہوگا، محض 28دن کے لیے ہم اپنا مذہب نہیں بدل سکتے‘۔ قطر ورلڈ کپ کے سکیورٹی چیئرمین عبدالعزیز عبداللہ الانصاری کے اس شفاف جواب سے دنیا بھر کے بالعموم اور عالم اسلام کے ممالک کو بالخصوص یہ پیغام دیا گیا ہے کہ مغرب ہر محاذ پر اپنی تہذیب کی نمائش کرنے سے قاصر رہے گا اگر ان ممالک کے حکام اپنی اقدار و روایات اور مذہبی تشخص اور شعائر کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ گویا انہوں نے واضح کر دیا کہ ہماری طرف سے ان پابندیوں کے علاوہ اور کوئی پابندی نہیں ۔ میچ دیکھنے کے لیے صرف وہ شائقین آئیں جو ان پابندیوں کے حدود و دوائر میں رہتے ہوئے کسی قسم کا کوئی تامل محسوس نہ کریں۔ قطری حکام نے اس بات کی رتی بھر پروا نہیں کی کہ اپنے مو¿قف پر قائم رہنے سے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کس قسم کے نقصانات کے خدشات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دریں چہ شک کہ اگر اسی چیز کو جواز بنا کر فیفا ورلڈ کپ کے ذمہ داران قطر میں منعقدہ ورلڈ کپ کی تنسیخ کا اعلان کر دیتے تو یقینا قطری امارت کو 300 بلین ڈالر کے مہیب نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ لیکن ورلڈ کپ کے انعقاد کے ذمہ داران کو اس امر کا کامل ادراک و احساس تھا کہ اگر وہ قطری امارت کی جانب سے عائدکردہ پابندیوں کے خلاف معمولی سی چوں چرا کریں گے تو بھی قطری حکام کو اس امر کی پروانہ ہو گی کہ انہیں کتنے مہیب نقصانات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ عالم اسلام کے تمام ممالک قطری حکام کے اس اقدام کوبنظر تحسین دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تمام خدشات کے باوجود اسلامی اقدار و شعائر کی تنفیذ کو اپنی اولین ترجیح بنائے رکھا اور آبرو باختہ مغربی تنظیموں کے احتجاج کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا۔
 اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی اپنے مو¿قف پر ڈٹ جائے تو تمام دنیا مل کر بھی اس کے عزم اور ارادے کو شکست نہیں دے سکتی۔ قطری حکام کے استقلال و استقامت پر مغربی دنیا حیران و ششدر اور انگشت بدنداں ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ امر خوش آئند ہے کہ قطری امازت کے ذمہ داران نے اس میگا ایونٹ کو بھی دینی اقدار و شعائر کے فروغ کا ایک ذریعہ بنا لیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ’دنیا بھر سے سیکڑوں علمائے کرام اور سکالرز کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لیے قطر آئیں ، علاوہ ازیں 2ہزار مقامی علمائے کرام بھی فٹبال ورلڈ کپ کے دوران مذکورہ فریضہ ادا کریں گے، ملک بھر کی مساجد کے مو¿ذن تبدیل کرکے دلکش آوازوں والے مو¿ذن مقرر کر دئیے گئے ہیں، تمام مساجد کو اسلامی میوزیم طرز پر پیش کیا جائے گا جہاں کسی بھی وقت کوئی آکر معلومات لے سکے گا، ملک بھر میں قرآنی آیات، احادیث اور تاریخ اسلامی کو نمایاں کرنے کی غرض سے فلیکس اور بل بورڈز لگائے گئے ہیں، قرآن مجید کے تراجم، مختلف زبانوں میں اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب تقسیم کی جا رہی ہیں، ہرسٹیڈیم میں نماز کی جگہ کو نمایاں کیا گیا ہے‘۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے ممالک سے فٹبال ٹیموں کی آمد ظاہر کرتی ہے کہ اگر اسلامی ممالک عزم صمیم کے ساتھ فروغ اسلام کے لیے سینہ سپر ہو جائیں تو انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ در پیش نہیں ہو سکتا۔ یہ چند اسلامی ممالک کے مغربی تہذیب سے مرغوب ذہنوں کا پراپیگنڈا ہے کہ اگر ہم نے اپنے شعائر کے ساتھ وابستہ رہنے کی منصوبہ بندی کی تو ہماری معیشت کو امریکا و مغرب ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ قطری حکام کے اس مثبت اقدام نے مغربی تہذیب کی بالادستی کے ڈرم بیٹرز کو باور کرا دیا ہے کہ انہیں اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ کسی مسلم ملک کی تہذیب کا تمسخر اُڑانے کے لیے اپنی بے سر و پا تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...