مجھے ہفتے کے روز گورنمنٹ کالج ساہیوال ایلومنائی ایسوسی ایشن کے دوسرے سالانہ عشائیہ میں شرکت اور اس تقریب کے انتظامات کا جائزہ لینے کےلئے اس تقریب کے انعقاد سے گھنٹہ دو گھنٹہ قبل ساہیوال پہنچنا تھا۔ ہمیں ا س تقریب کو ہر حوالے سے کامیاب بنانے کی فکر لاحق تھی جس کےلئے ہم نے ایلومنائی کے لاہور چیپٹر کو بھی متحرک کیا اور ایلومنائی کے صدر انجینئر عاطف محمود کے علاوہ دوسرے عہدیداران ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم، ریاض مسعود، ڈاکٹر نسیم بلوچ اور طاہر نسیم سے بھی میرا مسلسل رابطہ تھا۔ سابق جج لاہور ہائیکورٹ جسٹس حسنات احمد خاں بھی عشائیہ کی کامیابی کے متمنی تھے چنانچہ ایلومنائی کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے میں زیادہ فکر مند ہوا کہ اس تقریب کو کیسے یادگار بنایا جائے، میں نے محترم مجیب الرحمان شامی سے ساہیوال روانگی کا شیڈول طے کیا اور استراحت کےلئے بستر پر دراز ہو گیا۔ نیند کے غلبے میں ہی موبائل فون پر وٹس ایپ میسج کی ٹون آئی تو بے دھیانی میں فون اٹھا لیا اور وٹ ایپ پر آئے پیغامات چیک کرنے لگا۔ جب میری نظر اپنے دہائیوں قبل کے عزیز و محترم دوست سید افضل حیدر کی صاحبزادی فریدہ بتول کے پیغام پر پڑی تو میں سکتے کی کیفیت میں آ گیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں صرف چند الفاظ تحریر کئے تھے کہ ابّو کا ابھی ابھی انتقال ہو گیا ہے، جنازہ اور تدفین کے وقت کی بعد میں اطلاع کی جائےگی۔ یا خدا۔ یہ بیٹھے بیٹھے کیا ہو گیا، شاہ جی طویل عمری کے باعث نقل و حرکت میں دقت اور نقاہت تو محسوس کرتے تھے۔ انکے دل کا بائی پاس آپریشن بھی ہو چکا تھا، اسکے باوجود وہ نوجوانوں سے بھی زیادہ متحرک نظر آتے تھے۔ وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کےلئے بھی وقت نکال لیتے جبکہ وہ ایک نجی لاءکالج کے پرنسپل کی ذمہ داریاں بھی اپنی معمول کی سرگرمیوں کی طرح نبھا رہے تھے۔ میرے کہنے پر انہوں نے نوائے وقت میں ”پاکستان کہانی“ کے عنوان سے اپنے کالموں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس کےلئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل ٹیلی فونک رابطے میں رہتے۔ انہیں کسی ایشو پر کچھ معلومات درکار ہوتیں تو مجھے فون کرنے کے بعد سب سے پہلے یہ فقرہ ادا کرتے کہ ”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا“۔ اس پر میرا ایک ہی جواب ہوتا کہ شاہ جی آپ شرمندہ تو نہ کیا کریں۔ میرا انکے ساتھ آخری ٹیلی فونک رابطہ ان کے انتقال سے صرف ایک روز قبل ہوا۔ انہوں نے فون پر مجھ سے استفسار کیا کہ آیا میرے آفس کے آدمی نے آپ کو میرا نیا کالم بھجوا دیا ہے۔ میں وہ کالم پہلے ہی وصول کر چکا تھا اس لئے میں نے فوراً ہی شاہ جی کو انکے کالم کی وصولی کی تصدیق کر دی اور ساتھ ہی یہ بھی یقین دلا دیا کہ ایک دو روز میں ان کا کالم شائع ہو جائےگا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس لمحہ¿ موجود کی مفکر و مدبر نابغہ¿ روزگار شخصیت سابق صوبائی اور وفاقی وزیر قانون ، سابق جج وفاقی شرعی عدالت، سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار، انسانی حقوق کے علمبردار اور سب سے بڑھ کر میرے بڑے بھائیوںجیسے دوست سید افضل حیدر کے ساتھ یہ میرا آخری ٹیلی فونک رابطہ ہے۔ فریدہ بتول کے پیغام نے تو گویا میرے جسم سے روح ہی نکال دی۔ عملاً بے سدھ اور نڈھال ہو کر لیٹ گیا اور ایلومنائی کے عشائیہ میں شرکت کےلئے ساہیوال کا رختِ سفر باندھنا بھی میرے لئے بوجھ بن گیا۔ شش و پنج میں پڑا رہا کہ اداس ماحول کو اوڑھ کر سفر پر نکلنا مناسب ہو گا یا نہیں۔ اسی شش و پنج میں رات جاگتے گزر گئی اور پھر بادل نخواستہ یہ سوچ کر ساہیوال جانے کا ارادہ باندھ لیا کہ وہ محفل بھی دہائیوں پرانے دیرینہ دوستوں سے بہر ملاقات کی محفل ہے۔ ہمارے جسم میں خون کی گردش موجود ہے، سینے میں دل دھڑک رہا ہے، کانوں تک قوت سماعت کو رسائی حاصل ہے اور آنکھوں میں بھی ”میناو ساغر“ کو دیکھنے کےلئے دم موجود ہے تو یہی دم غنیمت ہے۔ ایک موقع میسر آیا ہے اپنے طالب علمی کے دور کے دوستوں، ساتھیوں، سنگیوں سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کا اور انکے ساتھ مل بیٹھ کر جوانی کے ترانے گانے اور دبی چنگاریاں سلگانے کا تو برحق موت کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس موقع سے بھی استفادہ کر لیا جائے ورنہ پھر احمد فراز کی زبان میں دوستوں کی محبت سے محرومی پر شکوہ سنج ہی رہیں گے کہ
جُز تیرے کوئی بھی حالات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے
ساہیوال کیلئے رختِ سفر باندھنے سے پہلے محترم مجیب الرحمان شامی سے مشاورت کی کہ کیوں نہ پہلے سید افضل حیدر کی نماز جنازہ میں شریک ہو لیں اور باقیماندہ زندگی میں پچھتاوے کے احساس سے خود کو بچا لیں۔ شامی صاحب نے بلاتوقف حامی بھری اور ڈرائیور کو ملتان روڈ سے گاڑی کا رخ حالی روڈ گلبرگ کی جانب موڑنے کی ہدایت کر دی۔ ہم نماز جنازہ کے مقررہ وقت سے پندرہ منٹ قبل محمدیہ مسجد حالی روڈ میں پہنچ گئے جہاں درگاہ چن پیر پاکپتن کے گدی نشین اور انکے مریدوں نے ہمارا خیرمقدم کیا۔
سید افضل حیدر درحقیقت عظیم انسان دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کی بھی علامت تھے۔ وہ چن پیر کے علاوہ برصغیر کے صوفی شاعر بابا فرید الدین گنج شکر کے سابقہ اور موجودہ گدی نشین سے بھی خاندانی عزیز داری رکھتے تھے اوراس ناطے سے وہ اہلِ تشیع سے تعلق رکھنے کے باوجود بریلوی مکتبہ فکر میں یکساں طور پر مانوس و مقبول تھے۔ اس لئے ان کی نماز جنازہ میں بابا فرید اور چن پیر کے تعلقداروں کی بھی کثیر تعداد موجود تھی جو بطور خاص نماز جنازہ میں شرکت کےلئے پاکپتن سے لاہور آئے تھے۔ اسی طرح پاکپتن کی مانیکا فیملی سے بھی شاہ جی کے ایک خاندان جیسے تعلقات استوار تھے چنانچہ نماز جنازہ میں میاں عطاءمحمد خاں مانیکا اور میاں منظور مانیکا سے بھی ملاقات ہو گئی۔ شاہ جی کے ساتھ محبت کے رشتے میں بندھے اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور سابق جج صاحبان، لاہور ہائیکورٹ بار اور لاہور بار کے موجودہ اور سابقہ عہدے داران سمیت وکلاءکی کثیر تعداد اور کئی ”برگزیدہ“ سیاسی شخصیات سے بھی شاہ جی کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی سے قبل ملاقات ہوئی اور پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع مل گیا۔ افضل سندھو صاحب سے تو سالوں بعد ملاقات کاموقع ملا اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے مل کر بھی ایم آر ڈی کے دور والی ہائیکورٹ بار کی سرگرمیاں آنکھوں کے سامنے آ گئیں جب سید افضل حیدر بار کے صدر کی حیثیت سے جنرل ضیاءکی فوجی حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا کرتے تھے۔ وہ گرفتار ہوئے تو پوری بار سید افضل حیدر کے روپ میں ڈھل گئی جس میں اعتزاز احسن، عابد حسن منٹو اور دوسرے متحرک وکلاءفوجی حکمرانی کےخلاف تحریک میں سید افضل حیدر کی ترجمانی کرتے نظر آتے تھے۔ میری اس دور میں شاہ جی کے ساتھ اس طرح بھی ہم آہنگی ہو گئی کہ میں اس وقت لاہور پریس کلب کا سیکرٹری تھا اور میں نے گھٹن کے ماحول میں جمہوریت کی سربلندی کی خاطر ابلاغ کا دروازہ کھولنے کےلئے پریس کلب کے پلیٹ فارم پر ”تجزیہ“ پروگرام کا اجراءکیا چنانچہ قید سے بچ جانے والا جو لیڈر سید افضل حیدر کی دعوت پر لاہور ہائیکورٹ بار آتا اسے شاہ جی کی معاونت سے میں لاہور پریس کلب کے تجزیہ پروگرام میں بھی مدعو کر لیتا۔ یہ اس دور کی بحالی ¿ جمہوریت و آئین کی تاریخ ساز جدوجہد تھی جس میں سید افضل حیدر سربلند رہے اور لاہور پریس کلب کا پلیٹ فارم بھی اس جدوجہد میں ابلاغ کا نمایاں فورم بنا رہا۔
سید افضل حیدر سے میری خاندانی رفاقت بھی اس طرح بے مثال بنی ہے کہ انکے والد سید محمد شاہ جو پاکپتن کے قدآور وکیل تھے، قیام پاکستان سے قبل سرحدوں کے تعین کےلئے تشکیل پانے والے باﺅنڈری کمشن کے روبرو پاکستان کے کیس کی وکالت کرنے والے وکلاءکی ٹیم کا حصہ بن گئے اور انہوں نے زمینوں کا متعلقہ ریکارڈ اکٹھا کرنے کےلئے میرے والد چودھری محمد اکرم کی معاونت حاصل کی۔ سید افضل حیدر جو اس وقت 17 سال کے نوجوان تھے،باﺅنڈری کمشن کے روبرو پاکستان کے کیس میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے لاہور میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکپتن آ گئے۔ اس کیس میں سید افضل حیدر اور میرے والد مرحوم سید محمد شاہ کے فی الواقع دست و بازو بنے رہے، اس طرح انہیں قیام پاکستان کے تمام مراحل کے مستند گواہ بننے کا شرف حاصل ہوا، اسی تناظر میں سید افضل حیدر نے ”میں ہوں آخری گواہ“ کے زیر عنوان اپنی یادداشتیں قلمبند کرنا شروع کیں اور مجھ سے اس کتاب کا فلیپ بھی لکھوا لیا مگر افسوس کہ انکی زندگی میں اس کتاب کی اشاعت ممکن نہیں ہو پائی۔ اب قلم فاﺅنڈیشن والے علامہ عبدالستار عاصم زور لگا کر اس کتاب کی جلد اشاعت یقینی بنا سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اسد اللہ غالب صاحب نے پی سی آئی اے کے پلیٹ فارم پر میرے لئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا تو سید افضل حیدر اپنی علالت کے باوجود تشریف لے آئے اور یہ کہہ کر تقریب کے شرکاءکو حیران کر دیا کہ میری تو سعید آسی کے ساتھ 75 سال کی دوستی ہے۔ شرکاءکی حیرت کو بھانپ کر انہوں نے شگفتہ بیانی کے ساتھ انکشاف کیا کہ 75 سال قبل سعید آسی کے والد چودھری محمد اکرم کے ساتھ میری جو دوستی قائم ہوئی تھی ، سعید آسی کے ساتھ دوستی اسی کا تسلسل ہے۔
بلاشبہ ہم نے اس دوستی کی لاج رکھی ہے۔ چنانچہ جی سی ایس ایلومنائی کے عشائیہ میں بھی سید افضل حیدر کے ساتھ اس دوستی کا ذکر ہوتا رہا۔ ان سے وابستہ یادیں اتنی زیادہ ہیں کہ ایک کالم کے دائرے میں نہیں سموئی جا سکتیں سو ان کی یادوں کا سفر جاری رہے گا۔ فی الحال تو اسی تاسف کے ساتھ بندھ گیا ہوں کہ :
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
٭....٭....٭