افغانستان کی جانب سے خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر کرم بارڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ اور شیلنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں 2 بچوں سمیت 7 افراد زخمی ہو گئے جبکہ شیلنگ سے مویشی ہلاک ہوگئے۔ وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی ساجد حسین طوری نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے شدید مذمت کی اور فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کی معیشت کی بحالی میں مدد اور انسانی ضروریات پوری کرنے کیلئے فوری طور پر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر فراہم کرے۔
افغانستان کی طرف سے پے درپے فائرنگ کے واقعات انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔ ایک طرف پاکستان افغانستان کی معیشت کی بحالی کیلئے دنیا سے اسکی مدد کی اپیل کررہا ہے تاکہ وہاں پائیدار امن قائم ہو ،اسکی معیشت بحال ہو اور عوام کو ریلیف مل سکے۔ پاکستان تو اب بھی اسکی خوشحالی کیلئے عالمی سطح پر بلامشروط مخلصانہ کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ مستحکم اور پرامن افغانستان اسکی اپنی ضرورت ہے بلکہ خطے کے امن و سلامتی کیلئے بھی ضروری ہے۔ گزشتہ ہفتے چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک ایف سی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد باب دوستی کو تجارت اور ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بند کردیا گیا جس کے بند ہونے سے دونوں ملکوں کا بھاری نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان تو افغانستان کی خوشحالی کیلئے کوشاں ہے جبکہ افغانستان اسی کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان اب بھی بھارتی سازشوں کے زیراثر ہے اور اسی کی شہ پر افغانستان کے سرحد پار سے اسکے دہشت گرد اور سکیورٹی اہلکار پاکستان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ طالبان انتظامیہ کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کی کوششوں سے ہی امریکی انخلاءکے بعد انہیں افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملا ہے اور اس وقت افغانستان جن سنگین بحرانوں کا شکار ہے جس میں اسے کمزور معیشت اور انسانی المیہ کی انتہائی خوفناک صورتحال کا سامنا ہے‘ ان سے نجات کیلئے اسے پاکستان ہی ضرورت پیش آئیگی۔ اس لئے اسے پاکستان کیخلاف ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں سے گریز کرنا چاہیے جو پاکستان کی سلامتی پر حملے کے بھی مترادف ہیں۔اس سے خطے کا امن متاثر ہو سکتا ہے جس کا اقوام عالم کو نوٹس لینا چاہیے۔