منگل،26  ربیع الثانی ھ، 1444، 22 نومبر 2022ء 

قطر میں فیفا فٹبال کپ کا عالمی میلہ سج گیا۔ رنگا رنگ تقریبات سے آغاز 
سچ کہیں تو معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی چھوٹا سا ملک ہے وہ بھی عرب ملک ۔ایسا شاندار انتظام تو شاید ترقی یافتہ ممالک میں ہی ممکن ہے۔ فٹبال عرب و عجم کا ایک پسندیدہ کھیل ہے۔ دنیا بھر میں اس کے کروڑوں شائقین ہیں۔ لاکھوں کھلاڑی ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول کھیل ہے۔ تیل کی دریافت کے بعد عربوں کی تقدیر بدلی۔ قطر بھی ان عرب ممالک میں شامل ہے۔ اس شاندار ایونٹ سے پہلے دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں شامل ہوئی قطر ایئرویز(انٹرنیشنل فضائی سروس) کی دھوم ساری دنیا میں مچی تھی۔ اب فیفا فٹبال کپ کے اس عالمی میلے نے تو قطر کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ کسی بھی پہلو سے مخالفین کو پراپیگنڈے کا موقع نہیں ملے گا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے اس عالمی ایونٹ کا آغاز ہوا۔ چنانچہ قرآنی فلسفے کی تشریخ پر مبنی پروگرام سے غیر مسلم ممالک سے آئے مہمانوں اور ٹیموں پر اچھا اثر ہوا ہے۔ قطر کے درودیوار انسان دوست جان و مال اور مذہب کے احترام پر مبنی احادیث و آیات کے بینرز سے بھرے ہوئے خوب بہار دکھا رہے ہیں اوریہ ایک شاندار عالمی میلہ کی طرح عرب و عجم و افرنگ کی تمام ثقافتوں کا ترجمان بنا نظر آ رہا تھا جہاں جدید اور قدیم تہذیبیں ایک دوسرے کو گلے لگا کر نفرتوں کی دیواریں گرا رہی تھیں۔ انسان دوستی اور کھیل سے محبت کا پہلو اس میلے میں نمایاں رہا۔ رنگ و روشنی، ساز و آہنگ اور آتشبازی کے خوبصورت مناظر دنیا بھر کے کروڑوں نہیں اربوں لوگوں نے دیکھے۔ یورپ ، افریقہ عرب و ایشیا کی روایتی اور جدید موسیقی نے خوب رنگ جمایا۔ خدا کرے مسلم دنیا کے تمام ممالک اسی طرح نرم خوئی کے ساتھ اپنے مذہب کا خوبصورت سافٹ امیج دنیا کے سامنے لا کر باور کرائیں کہ مسلمان امن پسند ہوتے ہیں۔ قطر میں فٹبال کے عالمی مقابلے نے خوبصورت کام کی ابتدا کر دی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
سیاست میں آنا نہیں چاہتا: ذوالفقار علی بھٹو جونیئر 
گرچہ  مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر میں ہمارے دیگر موروثی سیاسی خانوادوں کے بچوں سے قدرے بہتر صلاحیت نظر آتی ہے مگر اس کے باوجود ان کا سیاست سے لاتعلقی کا اعلان حیران کن ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں تو پدرم سلطان بود والا فلسفہ خاصہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر سیاسی خاندانوں کے صاحب ثروت بچے بآسانی عوام کو بے وقوف بناتے، انکے غم میں آنسو بہاتے نظر آتے ہیں اور ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ ذوالفقار جونیئر نے بھی بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے مگر وہ سیاست کی نسبت قدرتی وسائل ماحولیات ،آبی حیات اور انسانی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ سیاست کی بجائے سماجی اور معاشرتی مسائل کے حل کیلئے عوام سے رابطے میں رہتے ہیں کبھی دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن مچھلیوں کی بقا کبھی سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی، کبھی ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ  مسائل پر انکے پروگرام چلتے رہتے ہیں مگر اب انہوں نے ایک ایسے موضوع پر اظہار خیال کیا جو ہمارے ہاں خاصہ متنازعہ ہے۔ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ٹھکرایا طبقہ ہے۔ ان کے حقوق کیلئے منعقدہ سیمینار اور ریلی میں گزشتہ روز ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے بھی شرکت کی اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’انگریزوں کے دور میں چھینے گئے انکے حقوق ہمیں واپس دلانا ہونگے‘‘۔ بے شک انہیں بھی اچھی زندگی گزارنے کا پڑھنے لکھنے کا باعزت روزگار کا حق ہے۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں مگر پی پی مرتضیٰ بھٹو گروپ کے مخالفین نیا شور اٹھائیں گے۔ پہلے ہی یورپ میں ٹرانس جینڈر کے حوالے سے جونیئر بھٹو کے سرگرمیوں پر کیا کم شور مچا تھا۔ جونیئر بھٹو ایک نوجوان سماجی کارکن ہیں۔ انکے جذبے جوان ہیں، وہ خواجہ سرائوں کے حقوق کے ساتھ اگر ملک کی سیاست میں بھی مردانہ وار کردار ادا کرنے کیلئے آگے بڑھیں تو انہیں بھٹو خاندان کے چاہنے والے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ویسے بھی تو وہ بھٹو خاندان کے حقیقی وارث ہیں اور فاطمہ بھٹو جیسی دانشور اور ذہین بہن بھی ان کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
شاہین آفریدی کا اپینڈکس کا آپریشن۔ایک ماہ آرام کریں گے
پتہ نہیں ہمارے کرکٹ کے ہونہار نوجوان کھلاڑی شاہین آفریدی کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل انجری اور بیماری کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ پہلے ٹانگ میں انجری ہوئی خدا خدا کر کے وہ تھوڑی درست ہوئی تو آئو دیکھا نہ تائو ہماری کرکٹ انتظامیہ نے انہیں فوراً ایشیا کپ ٹی ٹونٹی کے مقابلوں میں اُتار دیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ ابھی تکلیف موجود ہے پوری طرح انجری ٹھیک نہیں ہوئی۔ نتیجہ کیا نکلا ریکوری کیا ہونی اُلٹا اور تکلیف بڑھ گئی یعنی 
’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ 
بڑے بڑے کھلاڑیوں اور ماہرین نے انہیں کھلانے سے منع کیا تھا مگر ہماری کرکٹ انتظامیہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ اب ٹی ٹونٹی کے آخری میچ میں ایک مرتبہ پھر شاہین آفریدی کا گھٹنا جواب دے گیا اور وہ تکلیف سے دوہرے ہو کر میدان میں ہی گر گئے۔ اب وہ پھر ٹیم کو بہ سبب علاج انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف دستیاب نہیں ہوں گے۔ اوپر سے انہیں اچانک اپینڈکس کی تکلیف بھی شروع ہوگئی جس کا انہوں نے آپریشن کرا لیا ہے اب کم از کم ایک دو ماہ انہیں مکمل آرام کرنا ہو گا۔ خدا کر ے شاہین آفریدی سے یہ نحوست کے بادل چھٹیں اور وہ پھر تندرست و توانا ہو کر کھیل کے میدان میں کامیابیاں سمیٹتے نظر آئیں۔ 
٭٭٭٭٭
پھل سبزیاں مہنگی اور ضروری ادویات عنقا ہو گئیں 
اس وقت ملک میں مہنگائی کی جو صورتحال ہے۔ اس پر تو لگتا ہے ا س ملک میں جینے ا ور مرنے دونوں پر پابندی ختم کر دی گئی۔ جس کا جی چاہتا ہے وہ اگر جی سکتا ہے تو رو دھو کر بھوک ننگ برداشت کر کے جی لے ورنہ مر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات بھی مہنگی کر دی گئی ہیں کہ بیمار لاچار لوگ جو ادویات خریدنے کی سکت نہیں رکھتے  وہ خاموشی سے 
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا 
دنیا میں خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا 
جس ملک میں زندہ رہنے کے لیے کھانا پینا اور بیماری ادویات میسر نہ ہوں۔ وہاں کس نے جینے کی تمنا کرنی ہے۔ اشرافیہ تو پہلے ہی چاہتی ہے کہ یہ غریب بھوکے ننگے جلد از جلد مر جائیں تاکہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا ، حسد بھری نظروں سے تاڑنے والا نہ رہے اور یوں مرزا یار خالی گلیوں میں پراڈو گھماتے ہوئے موجیں اڑتے پھریں۔ اس سارے عمل میں ہمارے حکمران خواہ وفاقی ہوں یا صوبائی برابر کے شریک ہیں۔ زرعی اراضی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو اونے پونے داموں الاٹ کرکے وہاں کنکریٹ کا تعمیراتی جنگل آباد کر لیا ہے۔ اب اجناس، پھل، سبزیاں کہاں سے اُگیں گی۔ جب زرعی اراضی ہی میسر نہ ہو گی تو زراعت کا خاتمہ ہو گا۔ زمین سے فصلوں کی جگہ بھوک اور ننگ اُگے گی۔ بنجر زمینوں میں ہم نے کونسے کارخانے لگائے ہیں۔ فیکٹریاں بنائی ہیں کہ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ وہ اسی طرح بانجھ پڑی ہیں۔ یوں بھوک ننگ اور بیماری کے ہاتھوں غریب اگلے جہان سدھاریں گے اور ملک میں منرل واٹر، امپورٹڈ سبزیاں، گوشت دالیں ، چکن ، مٹن ، بیف، فش، پنیر ، ڈبل روٹی منگوانے والوں کا راج ہو گا۔ یوں ایک خوشحال پاکستان وجود میں آئے گا۔ جہاں ’’راج کریگی اشرافیہ‘‘ کیونکہ خلق خدا کا دور گزر چکا ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن